بھائی اختر کی یاد میں

رودادِ خیال ۔۔۔صفدر علی خاں

0

آج بھی وہ ہنستا مسکراتا چہرہ میرے سامنے ہے ،اسکی نظروں میں بڑے بھائی کا احترام اور آنکھوں میں محبت کی چمک مجھے برسوں پرانے گھر میں لے جایا کرتی تھی ،اسکے بچپن کی معصوم شرارتوں سے لیکر لڑکپن کی ساری سرگرمیاں میرے ذہن کی دیوار پر نقش ہیں ۔2024ء کے آخری مہینے کی 29اور 30کی درمیانی شب اچانک دل میں درد اٹھنے پر جاگنے والا چودھری اختر اپنے بچوں سے آخری مکالمہ کرکے ہمیشہ کیلئے سو گیا،اطلاع ملنے پر ہم لاہور سے آہوں اور سسکیوں کے ساتھ چودھری اختر کے آخری دیدار کو پہنچے ،اس قدرآناً فاناً چودھری اختر کے بچھڑ جانے کا کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا ۔ والد گرامی چودھری عنایت کی نصحیتیں دماغ میں گونج رہی ہیں ،والد برسوں پہلے مجھے سارے بھائیوں کو جوڑے رکھنے کی جو تاکید کرتے رہے یکدم انکی ہر بات اب تازہ ہو رہی تھی ۔والد محترم کا چہرہ بھی سامنے آ رہا ہے ،اختر سے تو گزشتہ دنوں ہی میری بات ہوئی تھی اور اب 30دسمبر کو اختر کا جسد خاکی ہمارے سامنے تھا ،گھر میں کہرام برپا رہا ،اختر کے بچے ،زوجہ اور ہم سارے بھائی اسکے جنازے کا منظر دیکھ رہے تھے ،ایک دوسرے کو دلاسے اور صبر کی تلقین کرنے والے اندر سے ٹوٹ چکے تھے ۔ ہم جب اختر کے جسد خاکی کو سپرد خاک کرکے لوٹے تو زاروقطار روئے ،زندگی کی بے بسی اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی ۔بقول شاعر

زندگی ہے اپنے قبضے میں نہ اپنے بس میں موت
آدمی مجبور ہے اور کس قدر مجبور ہے

اپنے چھوٹے بھائی اختر کی اچانک وفات پر عزیز واقارب اور دوستوں نے اسے خدائے بزرگ وبرتر کی رضا قرار دیکر صبر جمیل کی دعا کر دی ،والدین سمیت کئی پیاروں کے بچھڑنے کے صدمے سہہ چکا ہوں ،تاہم چودھری اختر کے بچھڑنے کا مگر قلق رہے گا ۔تدفین کے بعد چھوٹے بھائی کے درجات کی بلندی کے لئے قرآن خوانی ہوئی ،سال نو کا آغاز ہوا ،عزیز واقارب معاملات زندگی کی طرف لوٹے ،میرا لاہور آنا جانا بھی ہوا ،ان تمام تر مصروفیات کے باوجود اختر کی اچانک وفات کا تاحال دل یقین نہیں کررہا ۔جہاں بھی جائوں اسکا خیال ساتھ رہتا ہے ۔انکھیں موند لینے پر اختر کا چہرہ سامنے ہوتا ہے
بقول شاعر !

یقین ہی نہیں آتا بچھڑ گیا اختر
نظر اٹھائوں جدھرسامنے کھڑا اختر

میرے لئے اپنوں کے بچھڑنے کا ہر غم حادثے کی صورت سامنے آیا ،مجھے اس موت وحیات کے فلسفے پر غور فکر کرنے پر یہی محسوس ہوا ہے کہ زندگی بھی حادثہ ہے اور موت بھی ایک حادثہ ہی ہے۔حادثوں کے دوران جو مختصر وقت میسر ہے وہی غنیمت ہے ،انسان کے لئے ایک دوسرے کیساتھ حسن سلوک کا بھی یہی موقع ہے ۔موت کے بعد کی اصل زندگی کا حقیقی تصور بھی یہاں سے پیدا ہو رہا ہے ،وہی لوگ مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں جو اپنے کردار سے دوسروں کی بہبود کا وسیلہ بن گئے ۔
زندگی انتہائی مختصر ہے اور یہ انسان سے محبت ،انسانیت کی خدمت اور فلاح کے حوالے سے ناکافی ہے،اسکے باوجود معلوم نہیں پھر بھی لوگ نفرت اور انتشار کیلئے کہاں سے وقت نکال لیتے ہیں ۔زندگی کو دوسروں کے کام آنے کیلئے وقف کرنے والے عبد الستار ایدھی اور مدرٹریسا جیسے لوگ تو بہت عظیم ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس دور اذیت میں جو کسی کی دل آزاری نہیں کرتے ،کسی کے معاملے میں بے جا مداخلت نہیں کرتے ،دوسروں کو لڑانے کیلئے نفرت نہیں بانٹتے وہ بھی بہت عمدہ انسان ہیں ،اور چودھری اختر نے بھی کم ازکم کسی کا دل دکھانے کی کبھی شعوری کوشش نہیں کی ۔اس موقعہ پر میں ان تمام عزیز و اقارب اور دوستوں کا تہہ دل سے مشکور ہوں جہنوں نے بھائی چوہدری اختر کے لئے بلند درجات و مغفرت کی دعا و ہماری دل جوئی کی،اللہ پاک سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.