ملک کا تازہ ترین بجٹ پیش ہو چکا ہے اور حسب روایت ایک مرتبہ پھر عوام اور معیشت کو امیدوں، خدشات اور تضادات کے بیچ لا کھڑا کیا گیا ہے۔ ظاہری بات ہے کہ اعداد و شمار تو ہمیشہ خوبصورت لگتے ہیں لیکن جب بات زمینی حقائق اور عام آدمی کی زندگی کی ہو، تو تصویر مختلف ہو جاتی ہے۔
موجودہ سال کا بجٹ ظاہری طور پر “مالی نظم و ضبط” کا پیغام دے رہا ہے۔ حکومت نے خسارے کو محدود رکھنے، اخراجات میں کفایت شعاری، اور قرض کی ادائیگی کو ترجیح دینے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اس میں کوئی بنیادی معاشی ڈھانچہ تبدیل نہیں کیا گیا۔ جیسا کہ اکثر ہوتا ہے، حکومت نے ٹیکس نیٹ بڑھانے کی بات تو کی ہے، مگر عملی اقدامات واضح نہیں ہیں کہ یہ کس طرح ممکن ہو گا۔اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ بجٹ صرف بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی خوشنودی کے لیے تیار کیا گیا ہے؟ یا اس میں واقعی کوئی قومی ترقی کا وژن بھی ہے اور عام پاکستانی کہاں کھڑا ہے۔ جسے اس بجٹ میں کوئی خاص ریلیف نہیں دیا گیا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی یا مہنگائی کے جن کو قابو کرنے کی کوئی حکمت عملی پیش نہیں کی گئی ۔ تنخواہ دار طبقے کو بڑھتے ہوئے اخراجات کے مقابلے میں پھر سے تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔حکومتی زبان میں “ترقیاتی منصوبے” شامل ضرور ہیں، مگر ماضی کے تجربے سے یہ بات واضح ہے کہ ان منصوبوں کا فائدہ عموماً اشرافیہ یا مخصوص طبقات تک ہی محدود رہتا ہے۔بجٹ ایسے وقت میں پیش کیا گیا ہے جب وفاقی حکومت کو اپوزیشن کی سخت تنقید کا سامنا ہے۔ ملک کی سیاسی فضا دھواں دھواں ہے، اعتماد کا فقدان ہے اور بدقسمتی سے پارلیمنٹ بھی مکمل سیاسی ہم آہنگی سے محروم نظر آتی ہے۔وفاقی حکومت کے لیے یہ بجٹ ایک امتحان بھی ہے اور ایک پیغام بھی ۔سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ کیا حکومت صرف “نمبروں” کا کھیل کھیل رہی ہے یا وہ واقعی “حکمرانی” کے جذبے سے کام لے رہی ہے؟ حزبِ اختلاف کا موقف ہے کہ یہ بجٹ اشرافیہ اور طاقتور حلقوں کو نوازنے کے لیے تیار کیا گیا ہے، جب کہ کمزور طبقات کو تسلیوں اور وعدوں پر ٹال دیا گیا ہے۔بجٹ میں ایک بات یہ بھی محسوس ہو رہی ہے کہ قرض کی ادائیگی اور حکومتی غیر ترقیاتی اخراجات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ ریاست کے اصل مالیاتی ترجیحی دائرے کیا ہیں۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر بجٹ کا بڑا حصہ ماضی کے قرضوں کی واپسی اور دیگر اللوں تللوں میں صرف ہوتا رہے گا، تو تعلیم، صحت، روزگار، اور معاشرتی بہبود کے لیے گنجائش کہاں بچے گی؟
بجٹ 2025–26 ایک ایسی مالی دستاویز نظر آ رہی ہے جس میں سمت تو دکھائی گئی ہے مگر راستہ واضح نہیں۔توازن قائم کرنے کی ایک کوشش ہے، مگر وہ توازن صرف نمبروں میں نظر آتا ہے، زمینی حقائق میں نہیں۔اگر حکومت واقعی اس بجٹ کو کامیاب بنانا چاہتی ہے تو اسے ٹیکس نظام میں انصاف، اخراجات میں شفافیت، اور سب سے بڑھ کر عوامی فلاح کو اولین ترجیح دینا ہو گی کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ بجٹ صرف پیسوں کی تقسیم کے لیے نہیں ہوتا بلکہ ترجیحات کا آئینہ دار ہوتا ہے لہذا اس آئینے میں ہمیں خود کو بھی دیکھنا ہوگا۔”