پاکستان ، ایران شراکت کا نیا عہد

تحریر: صفدر علی خاں

3

ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزیشکیان کا حالیہ دورۂ پاکستان نہ صرف دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کا آغاز ہے، بلکہ ایک نئے معاشی، دفاعی اور جغرافیائی اتحاد کی بنیاد بھی بن سکتا ہے کیونکہ یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب خطہ شدید جیوپولیٹیکل دباؤ اور اندرونی چیلنجز کا شکار ہے اور اس وقت یقینی طور پر اسلامی دنیا کو اتحاد و اتفاق کی شدید ضرورت ہے۔صدر پزیشکیان نے جولائی 2025 میں صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پاکستان کا پہلا سرکاری دورہ کیا۔ اسلام آباد میں ان کے پرتپاک استقبال اور وزیراعظم پاکستان، صدر پاکستان اور دیگر اعلیٰ حکام سے تفصیلی ملاقاتوں نے یہ واضح کر دیا کہ دونوں ممالک ایک نئی شروعات کے لیے تیار ہیں۔
ایرانی صدر کا موجودہ دورہ نہ صرف رسمی ملاقاتوں مشتمل پر رہا بلکہ اس میں نو (9) مفاہمتی یادداشتوں (MoUs) پر دستخط کیے گئے، جن میں تجارت، توانائی، انسدادِ دہشت گردی، ثقافت، میڈیا، تعلیم، زراعت اور بارڈر مینجمنٹ جیسے شعبے شامل ہیں۔دونوں ممالک نے دو طرفہ تجارت کو اگلے دو برسوں میں 10 ارب ڈالر تک لے جانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ خاص طور پر ایران سے پاکستان کو بجلی کی ترسیل میں اضافے، تیل اور گیس کے شعبے میں تعاون اور بارٹر ٹریڈ (یعنی اجناس کے بدلے اجناس) کے نظام کو وسعت دینے پر اتفاق کیا گیا۔ایران نے بلوچستان کے لیے 100 میگاواٹ اضافی بجلی کی فراہمی کا وعدہ کیا ہے،اس کے علاوہ دونوں ممالک نے گیس پائپ لائن منصوبے کو آگے بڑھانے پر دوبارہ غور کرنے کا عندیہ دیا ہے حالانکہ اس پر امریکی پابندیوں کا دباؤ اب بھی موجود ہے۔پاکستان کا صوبہ بلوچستان اور ایرانی علاقہ سیستان کی سرحد ایک عرصے سے شورش اور اسمگلنگ کی زد میں ہے۔ یہ انتہائی اہم ہے کہ اس دورے میں دونوں فریقین نے ایک مشترکہ بارڈر سیکیورٹی کمیشن کے قیام کا فیصلہ کیا ہے، جس کا مقصد سرحدی علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہم آہنگی کو بہتر بنانا ہے۔صدر ایران کا یہ کہنا کہ پاکستان کی سلامتی ایران کی سلامتی ہے اور دہشت گردی دونوں ممالک کی مشترکہ دشمن ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ بیان نہ صرف جذباتی یکجہتی کی عکاسی کرتا ہے بلکہ عملی تعاون کے دروازے بھی کھولتا ہے، جیسے انٹیلیجنس شیئرنگ، مشترکہ گشت اور سرحد پار دہشت گردی کی روک تھام کے اقدامات۰۰۰۰لہذا پاکستان اس کو یقینا” خوش آمدید کہے گا۔
صدر ایران ڈاکٹر مسعود پزشکیان کا دورہ اس لئے بھی اہم ہے کہ یہ اس وقت ہوا جب چین، پاکستان، ایران اور افغانستان کے مابین شاہراہ ریشم (BRI) کا ایک نیا باب کھلنے کو ہے۔ گوادر اور چاہ بہار بندرگاہوں کے درمیان اقتصادی ربط پر بات چیت اس دورے کا خاص جزو رہی۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ دونوں بندرگاہیں حریف کی بجائے شریکِ کار بنیں اور یہ صورتحال بھارت کے لیے بھی ایک چیلنج ہے کیونکہ وہ چاہ بہار میں موجودگی کے ذریعے وسطی ایشیا تک رسائی چاہتا ہے۔ اگر پاکستان اور ایران اپنے اقتصادی راہداری منصوبوں کو ہم آہنگ کر لیں، تو یہ پورے خطے میں جنوب-جنوب تعاون (South-South Cooperation) کا ایک نیا باب بن سکتا ہے۔
غزہ، یمن اور لبنان میں جاری بحرانوں کے تناظر میں دونوں ممالک نے فلسطین کے مسئلے پر یکساں مؤقف اپنایا ہوا ہے اور اسلامی سربراہی کانفرنس کو فعال بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ صدر پزیشکیان اور وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف کی ملاقات کے بعد مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ

“فلسطین کے عوام کی جدوجہد حق خود ارادیت کا حصہ ہے اور دونوں ممالک فلسطین کے ساتھ ہر سطح پر کھڑے ہیں۔”

یہ پیغام نہ صرف اسرائیل اور اس کے حامیوں کے لیے سخت ہے بلکہ مسلم امہ کو بھی اتحاد اور وقار کی دعوت کے ساتھ ساتھ دونوں برادر ممالک کی یکساں سوچ و اپروچ کو ظاہر کرتا ہے۔

نتیجہ: ایک متوازن اور نیا دور

ڈاکٹر پزیشکیان کا دورہ صرف رسمی سفارتی اقدام نہیں، بلکہ ایک عملی، مربوط اور مستقبل پر نظر رکھنے والی خارجہ پالیسی کا مظہر تھا۔ اب گیند دونوں ریاستوں کے فیصلہ سازوں کے کورٹ میں ہے۔
اگر وہ ان معاہدوں پر مستقل مزاجی سے عمل کریں تو نہ صرف پاک-ایران تعلقات نئی بلندیوں کو چھو سکتے ہیں، بلکہ پورا خطہ ایک نئے توازن، خودمختاری اور باہمی تعاون کی طرف بڑھ سکتا ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.