طرزِ حکومت کے تجربات سے “مل جل کر چلنے” کی طرف: ایک نئی راہ یا وقتی سمجھوتہ؟

تحریر: صفدر علی خاں

5

پاکستان کی سیاسی تاریخ مختلف طرز ہائے حکومت کا تجربہ کرتی رہی ہے۔ کبھی مارشل لا کے سائے میں ملک چلا، کبھی صدارتی نظام کے تجربے ہوئے اور کبھی پارلیمانی وزارتی نظام کی صورت میں جمہوریت کو پنپنے کا موقع ملا۔ ہر طرزِ حکومت نے اپنے اثرات معاشرت، معیشت اور ادارہ جاتی ڈھانچے پر چھوڑے۔ تاہم آج۰۰۰۰۰ ایک نئی طرز کی “مل جل کر چلنے” کی حکمتِ عملی اختیار کی گئی ہے جہاں مختلف سیاسی، عسکری، عدالتی اور انتظامی حلقے کم و بیش ایک پیج پر نظر آ رہے ہیں۔ہمارا ملک ماضی قریب میں سیاسی انتشار، معیشتی بحران اور گورننس کے فقدان سے گزر چکا ہے لہذا اس تناظر میں اداروں اور قیادت کا ایک صفحے پر آ جانا بظاہر ایک خوش آئند تبدیلی محسوس ہوتی ہے۔ اس حکمت عملی کے کچھ مثبت اثرات بھی ہیں ۔ جیسا کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس سے غیر یقینی کی فضا ختم ہو گی اور سرمایہ دار کا اعتماد بحال ہو گا جس سے سرمایہ کاری میں اضافہ ممکن ہے اور اس صورتحال میں عالمی ادارے بھی پاکستان کو سنجیدگی سے لینے لگتے ہیں۔ بڑے قومی فیصلوں میں اسی طرح مختلف فریقوں کی شمولیت اسے متوازن بناتی ہے لہذا یہ بات نیشنل سکیورٹی، خارجہ پالیسی، اور اکنامک ریفارمز میں نظر آتی ہے۔مل جل کر چلنے کی پالیسی سے اداروں میں محاذ آرائی کی بجائے تعاون کا تاثر، عدالتی خودمختاری اور امن و امان کے لیے بہتر علامت ہے۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی پر بھی مثبت اثرات آتے ہیں کیونکہ مختلف جماعتوں کی شمولیت کے سبب بلز اور اصلاحات جلدی پاس ہونے لگتی ہیں۔
اگرچہ بظاہر مشترکہ حکمرانی کا تاثر مثبت ہے، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے کچھ اہم اور خطرناک خدشات بھی جنم لیتے ہیں کیونکہ جب تمام طاقتور ادارے مل کر فیصلے کرینگے تو کون کس کو جوابدہ ٹھہرائے گا؟ احتساب کی روح کمزور ہو سکتی ہے جبکہ اصل جمہوریت میں اختلاف رائے کی گنجائش ضروری ہے کیونکہ اگر سب ادارے صرف ہم آہنگی کے نام پر خاموش ہو جائیں تو حقیقی اپوزیشن کا کردار مفقود ہو جائے گا ۔اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مل جل کر چلنے کا ماڈل دراصل چند طاقتور طبقات کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہوتا ہے، نہ کہ عوامی فلاح کے لیے۰۰۰۰میڈیا اور بیوروکریسی پر غیر محسوس کنٹرول سے رائے عامہ کو ایک خاص رخ پر رکھا جاتا ہے، جو کہ جمہوریت میں خطرناک رجحان ہے۔یہاں
یہ سوال سب سے اہم ہے کہ کیا یہ ۰۰۰ہم آہنگ ماڈل۰۰۰ایک پائیدار قومی حکمت عملی بن سکتا ہے یا یہ محض وقتی سہارا ہے؟ تاریخ کا تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ جب ادارے اپنا اپنا دائرہ اختیار چھوڑ کر کسی اور کی حدود میں داخل ہوں تو بالآخر تصادم پیدا ہو جاتا ہے۔ اس لیے توازن، شفافیت، اور آئینی حدود کا احترام اس ماڈل کو کامیاب بنانے کی کنجی ہے۔
پاکستانی قوم نے کئی طرز حکومت دیکھ لیے ہیں لہذا موجودہ ماڈل اگر عوامی مفاد میں ہے، اگر اس میں شفافیت ہے اور اگر اسے ایک آئینی فریم ورک کے تحت چلایا جا رہا ہے تو یہ کسی حد تک مسائل کا حل بن سکتا ہے۔ مگر یاد رکھنا چاہیے کہ مستقل بہتری صرف اسی صورت میں آ سکتی ہے جب فیصلے عوام کی رائے، پارلیمنٹ کی بالادستی، اور اداروں کے آئینی کردار کے مطابق ہوں۔ورنہ یہ ۰۰۰ہم آہنگی۰۰۰خدانخواستہ کل کو ایک نئے بحران کا پیش خیمہ بھی بن سکتی ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.