سزا یا آزمائش – ایک اسلامی زاویہ نظر

تحریر۔۔۔۔۔صفدر علی خاں

3

دنیا کی زندگی انسان کے لیے ایک مسلسل امتحان ہے۔ کبھی راحت، کبھی مصیبت، کبھی کامیابی، کبھی ناکامی ۰۰۰یہ سب حالات اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کی آزمائش یا سزا کے طور پر نازل ہوتے ہیں۔ مگر عام مسلمان ان دونوں کی پہچان میں اکثر الجھ جاتا ہے۔ جب کوئی مصیبت آتی ہے، تو دل میں یہ سوال جنم لیتا ہے۔
کیا یہ میرے گناہوں کی سزا ہے؟ یا میرے ایمان کا امتحان؟

یہ سوال صرف فکری نہیں بلکہ روحانی اہمیت کا حامل بھی ہے۔ اسلام ان دونوں تصورات کو الگ الگ انداز میں واضح کرتا ہے، اور یہی تفریق مؤمن کو صبر، رجوع اور استقامت کا راستہ دکھاتی ہے۔
سزا (عذاب) کیا ہے؟
اسلامی تعلیمات کے مطابق، سزا یا عذاب اس وقت نازل ہوتا ہے جب کوئی فرد یا قوم دانستہ نافرمانی کرے، گناہوں میں حد سے بڑھ جائے اور بار بار تنبیہ کے باوجود اللہ کے احکامات کو نظرانداز کرے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت وسیع ہے، مگر جب انسان سرکشی پر اتر آئے، تو پھر عدل کا تقاضا ہوتا ہے کہ اسے اس کی روش کا انجام دکھایا جائے۔

قرآن کریم میں واضح طور پر فرمایا گیا:

“اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو وہاں کے خوشحال لوگ گناہ کرنے لگتے ہیں، پھر ان پر ہمارا عذاب واجب ہو جاتا ہے، پھر ہم اس کو تباہ کر دیتے ہیں”
(سورۃ الإسراء: 16)

قومِ نوح، عاد، ثمود اور قومِ لوط کی تباہیاں اس امر کی بڑی نشانیاں ہیں، جہاں مسلسل انبیاء علیہم السلام کی دعوت کو جھٹلایا گیا اور پھر زمین و آسمان سے ایسی سزائیں نازل ہوئیں جو رہتی دنیا تک نشان عبرت ہیں۔

آزمائش کیا ہے؟

دوسری جانب آزمائش (ابتلاء) مؤمن کے لیے ایک بلند مرتبے کی راہ ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے بندے کے ایمان، صبر، توقل اور قربِ الٰہی کو پرکھنے کا ذریعہ ہوتی ہے۔ آزمائش کا مقصد بندے کو توڑنا نہیں، بلکہ سنوارنا ہوتا ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

“اور ہم ضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف، بھوک، مال و جان اور پھلوں کے نقصان سے اور خوشخبری دو صبر کرنے والوں کو”
(سورۃ البقرہ: 155)

یہ آزمائشیں وقتی ہوتی ہیں، مگر ان کے نتائج ابدی ہوتے ہیں۔ جیسے حضرت ایوب علیہ السلام جنہیں بیماری، مال کی کمی، حتیٰ کہ اولاد کے صدمے جیسے سخت امتحانات کا سامنا رہا۔ مگر انہوں نے کبھی شکایت نہ کی۔ قرآن میں ان کے صبر کو ان الفاظ میں سراہا گیا:

“ہم نے انہیں صابر پایا، کیا ہی اچھا بندہ تھا، بے شک وہ بہت رجوع کرنے والا تھا”
(سورہ ص: 44)
اسی طرح حضرت خباب بن ارتؓ کا واقعہ — صبر کا ایک درخشاں نمونہ ہے ۔حضرت خباب بن ارتؓ صحابۂ کرام میں سے وہ عظیم ہستی ہیں جنہیں مکہ میں سخت ترین مظالم کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے جسم پر دہکتے انگارے رکھے گئے، یہاں تک کہ ان کی پیٹھ کا گوشت جل گیا۔ ایک دن وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا:
“یا رسول اللہ! کیا آپ ہمارے لیے دعا نہیں کریں گے؟”
نبی کریم ﷺ کا جواب تاریخ میں ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

“تم سے پہلے لوگوں کے ساتھ اس سے بھی زیادہ سخت سلوک کیا گیا، ان کے جسم کو آروں سے چیرا گیا، لیکن وہ دین سے نہ ہٹے۔ اللہ کی قسم! یہ دین مکمل ہوگا…”
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ آزمائش صرف ماضی کی بات نہیں، بلکہ صحابہ کرام جیسی عظیم ہستیاں بھی اس راہ میں بڑی بڑی تکالیف سے گزریں۔ لیکن ان کا ایمان مزید مضبوط ہوا کیونکہ ہر تکلیف سزا نہیں ہوتی، اور ہر نعمت آزمائش سے خالی نہیں ہوتی ۔ اصل نکتہ انسان کا اپنا ردعمل ہے۔ اگر مصیبت آتی ہے اور انسان توبہ کرتا ہے، تو وہی تکلیف اس کے لیے رحمت بن جاتی ہے۔ اور اگر آزمائش آتی ہے اور وہ صبر کرتا ہے، تو وہ اللہ کے قرب میں داخل ہو جاتا ہے۔

نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:

“مومن کا معاملہ عجیب ہے، اس کا ہر حال اس کے لیے خیر ہے؛ اگر اسے خوشی ملے تو شکر کرتا ہے، وہ بھی اس کے حق میں بہتر ہے، اور اگر مصیبت پہنچے تو صبر کرتا ہے، وہ بھی اس کے حق میں بہتر ہے”
(صحیح مسلم)

لہٰذا ہمیں ہر حال میں اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اگر گناہ کیے ہیں تو معافی مانگیں، اگر آزمائش میں ہیں تو استقامت دکھائیں۔ کیونکہ آزمائشیں ہی دراصل اللہ کی نگاہِ انتخاب کا ثبوت ہوتی ہیں۔لہذا ہر وقت یہ دعا اور کوشش کرنی چائیے کہ اللہ ہمیں ہر حالت میں راضی رہنے والا، صبر کرنے والا اور رجوع کرنے والا بندہ بنائے۔ آمین۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.