برصغیر میں سفارتکاری کا نیا دور شروع ہو چکا ہے اور ہمارہ خطہ اس وقت سیاسی و معاشی تغیرات کے عہد سے گزر رہا ہے۔ طاقت کے توازن، علاقائی اتحاد اور اقتصادی تعاون کے نئے منظرنامے میں چین کے وزیرِ خارجہ وانگ ای کا حالیہ دورہ ایک فیصلہ کن لمحہ ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ یہ بات سب کو معلوم ہونی چائیے کہ بھارت، افغانستان اور پاکستان کے وزرائے خارجہ سے ہونے والی ملاقاتیں محض رسمی بات چیت نہیں، بلکہ خطے کے مستقبل کے خاکے کا تعین کرتی نظر آتی ہیں۔چین کے وزیر خارجہ کا پاکستان کے لیے یہ دورہ ایک موقع بھی ہے اور امتحان بھی،ہم سمجھتے ہیں کہ یہ وقت پاکستان سے تدبر، شفافیت اور دور اندیشی کا تقاضا کرتا ہے۔چین نے پاکستان کے لئے سی پیک کے دوسرے مرحلے کے لیے مکمل تعاون کا اعلان کیا ہے حالانکہ سی پیک ون کے کئی منصوبے ابھی نامکمل ہیں۔ اس سب کے باوجود سی پیک توانائی، زراعت، کان کنی، ٹیکنالوجی اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں سرمایہ کاری پاکستان کی معیشت کے لیے نئی راہیں کھول سکتی ہے۔ اگر منصوبہ بندی شفاف اور بروقت ہو تو سی پیک کے ذریعے پاکستان خطے کا معاشی مرکز بن سکتا ہے۔
“خواب تعبیر چاہتے ہیں، شرط صرف تدبیر کی ہے”
افغانستان میں پاکستان، چین اور طالبان حکومت کے درمیان سہ فریقی مذاکرات نے خطے کے لئے نئی راہیں متعین کی ہیں۔ سی پیک کو افغان سرزمین تک بڑھانے کا منصوبہ وسطی ایشیا تک رسائی کا دروازہ کھول سکتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں پاکستان محض ایک گزرگاہ نہیں بلکہ پورے خطے کا تجارتی پل بن سکتا ہے،بشرطیکہ سفارتکاری میں تدبر اور سیکیورٹی میں مضبوطی برقرار رکھی جائے۔چین نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کو ہمیشہ تسلیم کیا ہے بلکہ اس نے پاکستان کی عالمی سطح پر بھی وکالت کی ہے۔پاکستان اور چین نے حالیہ ملاقاتوں میں مشترکہ سیکیورٹی تعاون کو مزید مستحکم بنانے پر اتفاق کیا ہے۔ چینی کارکنوں اور منصوبوں کے تحفظ کے لیے خصوصی فورسز کی تشکیل پر بھی بات چیت ہوئی ہے۔ لیکن یہ پیشرفت پاکستان کے لیے ایک واضح پیغام بھی ہے کہ معاشی شراکت داری اسی وقت ممکن ہے جب داخلی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ پاکستان کی بھرپور کوشش ہونی چاہیے کہ سی پیک کو قومی ترقی کا محور بناتے ہوئے بیجنگ کے ساتھ تعلقات کو “اسٹریٹجک پارٹنرشپ” کی سطح پر بڑھایا جائے۔اس وقت کے عالمی حالات کے تناظر میں چین کے بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے آثار نظر آ رہے ہیں لہذا اس تناظر میں پاکستان کو سفارتی توازن قائم رکھتے ہوئے غیر ضروری تنازعات سے بچنا ہوگا اور طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات میں احتیاط برتتے ہوئے تعاون کو ترجیح دینی ہو گی تاکہ خطے میں استحکام قائم رکھا جا سکے۔پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کوئی شک نہیں کہ ایک توازن محسوس ہو رہا ہے اور پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) جیسے فورمز میں اپنی سفارتی موجودگی بڑھا رہا ہے تاکہ چین کے ساتھ مل کر خطے میں اپنا کردار مضبوط کرے۔
طالبان حکومت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں ناپائیداری اور سرحدی مسائل کسی بھی وقت سی پیک منصوبوں کو متاثر کر سکتے ہیں لہذا پاکستان کو چین اور افغانستان دونوں کے ساتھ اعتماد سازی کرنے کی ضرورت ہے اورسی پیک منصوبوں میں شفافیت، مقامی صنعتوں کو شامل کرنے کے ساتھ ساتھ غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔چینی منصوبوں اور کارکنوں کے تحفظ کے لیے خصوصی اقدامات پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم ستون ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہونا چائیے کہ چین کے وزیرِ خارجہ کا حالیہ دورہ پاکستان کے لیے ایک تاریخی موقع ہے۔ یہ موقع پاکستان کی تقدیر بدل سکتا ہے، بشرطیکہ ہم درست فیصلے کریں، شفاف حکمتِ عملی اپنائیں اور خطے کے بدلتے حالات کا ادراک رکھیں کیونکہ یہ وہ لمحہ ہے جہاں پاکستان یا تو نئی بلندیوں کو چھو سکتا ہے یا ماضی کی طرح ایک اور سنہری موقع ضائع کر سکتا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم تدبر، اتحاد اور جرأت کو اپنا زادِ راہ بنائیں کیونکہ تاریخ ہمیشہ اُنہیں ہی یاد رکھتی ہے جو موقع کو پہچان کر اسے کامیابی میں بدل دیتے ہیں۔