پاکستان ایک بار پھر شدید بارشوں، سیلابی ریلوں اور قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کا شکار ہو چکا ہے۔ حالیہ مون سون میں مختلف شہروں اور دیہاتوں میں تقریباً دو سو سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ہر طرف تباہی، سڑکوں پر پانی، گھروں میں سیلاب اور دیہات کے دیہات برباد۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے۔ ہر سال جب برسات آتی ہے تو پاکستان کی سڑکیں دریا بن جاتی ہیں، کچے مکانات منہدم ہو جاتے ہیں اور قیمتی زندگیاں ضائع ہو جاتی ہیں۔ مگر ہمیشہ یہ سوال قائم رہتا ہے کہ ہم نے بطور قوم اور ریاست اس کا سدباب کب ، کہاں اور کیا سوچا یا کیا؟
عالمی سطح پر موسمی تغیرات (کلائمیٹ چینج) حقیقت بن چکے ہیں۔ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ شدید گرمی، بے وقت بارشیں، گلیشیئرز کا پگھلنا اور غیر معمولی بارشیں ، یہ سب ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ مگر ہم آج بھی ماحولیاتی منصوبہ بندی کو سنجیدگی سے نہیں لیتے بلکہ سابقہ حکومتوں کی نااہلی کی کہانیاں سنا کر لوگوں کومطمئن کرنے کی لاحاصل کوشش کی جاتی ہے۔موجودہ حکومت نے بھی حالیہ دنوں میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) اور صوبائی اداروں کو الرٹ کیا۔ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے وزٹ بھی میڈیا پر دکھائے گئے۔ مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ بیشتر علاقوں میں بچاؤ کے خاطر خواہ انتظامات موجود نہیں تھے۔ نالے صاف نہیں ہوئے، نشیبی علاقوں کے لوگوں کی بروقت منتقلی ممکن نہ بن سکی اور ہنگامی امداد کے نظام میں روایتی سستی نمایاں رہی۔اس کے علاوہ پاکستان میں آبی ذخائر کی قلت ایک سنگین مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ ہمارا ملک 1960 کے بعد سے اب تک صرف دو بڑے ڈیم — تربیلا اور منگلا — ہی تعمیر کر سکا ہے۔ جبکہ بھارت سمیت کئی دیگر ممالک درجنوں بڑے ڈیم بنا چکے ہیں اور ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت صرف 30 دن کی ہے، جبکہ بھارت میں یہ صلاحیت 170 دن ہے۔ماہرین کے مطابق پاکستان کو کم از کم چالیس سے پچاس درمیانے اور بڑے ڈیم درکار ہیں تاکہ نہ صرف پانی ذخیرہ ہو سکے بلکہ سیلاب کی تباہ کاریوں پر بھی قابو پایا جا سکے۔کیونکہ اگر بارشیں ہوتی ہیں تو سیلاب اور نہ ہوں تو قحط و خشک سالی۔ یہ دونوں انتہائیں اس بات کا نتیجہ ہیں کہ ہمارے پاس پانی ذخیرہ کرنے کے خاطر خواہ ذرائع نہیں ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ڈیم ہوتے تو بارش کا پانی محفوظ ہوتا، زیر زمین پانی کی سطح بہتر ہوتی اور اس سے ہماری زرعی پیداوار میں اضافہ ہوتا۔
اصل ضرورت یہ ہے کہ مستقل بنیادوں پر ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے پالیسی سازی ہو جس میں شہری منصوبہ بندی میں ماحولیاتی تحفظ کو شامل کیا جائے ،ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا مربوط اور فعال نظام قائم کر کے نکاسی آب کے جدید نظام اور برساتی پانی کے محفوظ استعمال کے منصوبے عملا” بنائیں جائیں اور اس سب کے لئے یہ بھی ازحد ضروری ہے کہ عوامی شعور پیدا کیا جائے اور مقامی سطح پر تربیت کا انتظام بھی ہو۔ازحد ضروری ہو چکا ہے کہ اب ہمیں بحیثیت قوم و حکومت اپنے رویے اور ترجیحات بدلنا ہوں گی۔۔۔۔وگرنہ ہر آنے والی بارشوں کے ساتھ ہماری ترقی و خوشحالی کی امیدیں بھی بہتی رہیں گی۔