حصول آزادی سے معرکہ حق تک

تحریر۔ شفقت اللہ مشتاق

1

حصول آزادی سے معرکہ حق تک کا سفر مشکل، کٹھن، پرخار اور تھکا دینے والا ضرور ہے لیکن ہمت، حوصلہ، استقامت، جوش و جذبے، خندہ پیشانی اور عزم و استقلال کا سفر ہے۔ زندگی میں اونچ نیچ کا ہونا فطری ہوتا ہے اور بلند ہمت اور پختہ عزائم والے لوگ تسلسل کے عمل سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ ہم تو پھر رزم حق وباطل میں فولاد اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ہیں۔ حصول آزادی کے ساتھ ہی ہندوستان کا مبنی بر مخاصمت رویہ کھل کے سامنے آگیا تھا اس نے کھل کر کھیلنا شروع کردیا تھا اور ہم کو دیوار کے ساتھ لگانے کی پوری پلاننگ کی گئی اور پھر اس پر ناپاک سازشوں کی تو اخیر کردی گئی اس سلسلے میں نہرو لارڈ ماونٹ بیٹن رویہ تاریخ کا حصہ ہے۔ ویسے تو قیام پاکستان سے بہت ہی پہلے ہندو ذہنیت تو دوراندیش مسلم قیادت پر پہلے عیاں ہو چکی تھی اور پھر کانگریسی وزارتوں کے حصول کے بعد تو ہندو چہرہ مکمل طور پر بے نقاب ہو گیا تھا اور یہ حقیقت سب مسلمانوں پر واضح ہو گئی تھی کہ اب بن کے رہے گا پاکستان۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کسی تقریب میں تشریف فرما تھے اور وہاں کچھ ہندو نوجوانوں نے ان پر زبان کے تیر چلانے شروع کردیئے اور کہا کہ آپ ہندوستان کا بٹوارہ کرنا چاہتے ہیں آپ زیادتی کررہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ آپ ہمیشہ دلیل کے ساتھ بات کرتے تھے اور آپ نے انتہائی تحمل سے ایک ہندو لڑکے کو اپنے پاس بلایا۔ آپ کے سامنے پانی کا ایک گلاس پڑا تھا آپ نے اس گلاس سے ایک دو گھونٹ پیئے اور پھر ہندو لڑکے سے کہا کہ باقی پانی آپ پی لیں تو اس نے اس لئے کہ یہ ایک مسلمان کا بچا ہوا پانی ہے انکار کردیا۔ اس کے بعد وہی پانی ایک مسلمان کو پیش کیا گیا جس نے خوشی خوشی وہ پانی پی لیا۔ اس پر قائد نے فرمایا یہ ہے وہ بات جس کی وجہ سے ہم نے علیحدہ ریاست کا مطالبہ کیا ہے۔ ہندوؤں کی تو یہ سوچ تھی کہ ہندوستان کی آزادی کے بعد مسلمانوں کو اتنا تنگ کیا جائے کہ یا تو وہ ہندوستان چھوڑ جائیں یا پھر ہندو بن کر رام رام کرنا شروع کردیں۔ شاید وہ نہیں جانتے تھے کہ جب کوئی ایک دفعہ رحمان کہتا ہے اور اس کو جو سرور اور لذت آتی ہے اس کا کوئی بدل نہیں ہے لہذا وہ کس طرح اپنا مذہب بدل سکتا تھا۔ لذت آشنائی جاننے والے اپنی آزادی کے حصول کے لئے جان دینا فرض سمجھتے تھے اور اسی جذبے نے ان کو دنیا کے سامنے سرخرو کیا اور 14 اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آگیا
حصول آزادی کے ساتھ ہی معرکہ حق کا آغاز ہو گیا تھا۔ ہندوستان نے اثاثہ جات کے حصول میں لارڈ ماونٹ بیٹن کے ساتھ مل کر نہ صرف ڈنڈی ماری بلکہ سرے سے ہی پاکستان کے حصے کے مطابق اثاثے دینے سے صریحا انکار کردیا۔ ہندو انگریز گٹھ جوڑ۔ ہم جائیں تو کس کے پاس اوپر سے کشمیر جس کا منصوبہ تقسیم ہند کے فیصلے کے مطابق پاکستان کے ساتھ الحاق ہونا تھا۔ وہاں فوری طور پر فوجیں اتار دی گئیں اور نہتے کشمیریوں کی آواز دبانے کی ہر طرح کی کوشش۔ شاید بھارت اس بات سے پوری طرح آگاہ نہیں تھا( باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم ۔۔۔ سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا) بلاشبہ کچھ امتحان تیاری کے ساتھ دیئے جاتے ہیں اور بسا اوقات تیاری کا وقت ہی نہیں ہوتا ہے۔ قائد اعظم کے حکم کے باوجود جنرل گریسی نے فوج کشمیر بھیجنے سے معذرت کرلی تو قبائلی علاقہ کے لوگوں سے کشمیری بھائیوں کی حالت دیکھی نہ جا سکی اور پھر انہوں نے قوت ایمانی کی بدولت معرکہ حق کا ایک نیا باب رقم کیا۔ پھر 1965 کا سال آتا ہے اور ہمارا دشمن ملک ہماری سر زمین پر شب خون مارتا ہے اور پھر ہماری افواج نے ان کا جس انداز سے راستہ روکا اس کی ساری دنیا گواہ ہے۔ دشمن بااصول ہو تو جنگ لڑنا آسان ہوتا ہے لیکن بھارت تو ہمارے وجود کو بھی برداشت نہیں کرتا ہے اس کے گھٹیا پن کی بدولت ہمارا ملک دولخت ہو گیا۔ یہ ایک ایسا موقعہ تھا جب ہمارے حوصلے پست ہونے کا امکان تھا لیکن اس غیرت مند قوم نے اپنے آپ کو دوبارہ منظم کیا اور پھر معرکہ حق میں دو بدو لڑنا شروع کردیا۔ یہ لڑائی ہر محاذ پر لڑی جارہی تھی اور پاکستان کو تن تنہا لڑنا تھا کیونکہ مغربی ممالک اور اقوام متحدہ کی ہر موقعہ پر بھیڑ چال۔ لارے لپے اور وعدے وعید۔ چلتے چلتے 2025 آتا ہے اور انڈیا اوور کانفیڈنٹ، تکبر اور نخوت، ہٹ دھرمی اور بدمعاشی۔9 مئی کی رات دھڑا دھڑ بہالپور اور مرید کے میں میزائلوں کی اندھا دھند بارش۔ بے شمار معصوم بچے عورتیں اور جوان شہید کردیئے گئے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔ ساری قوم بیدار ہو گئی اور اپنی افواج پاکستان کے ساتھ معرکہ حق میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے مکمل طور پر تیار۔ پاکستان کے طیارے اڑتے ہیں اور آنافانا ہندوستان کی تنصیبات تہس نہس کردیتے ہیں اور مخالف کے جہاز اڑنے سے پہلے ہی جام کردیئے جاتے ہیں۔ معرکہ حق کا کلائمکس اور مودی کی چیخیں اور پھر امریکہ کا درمیان میں آکر کھڑا ہونا معرکہ حق میں حصہ لینے والے غیور پاکستانی فوجیوں کے سامنے ہندوستان کا گھٹنے ٹیکنا اس کو کہتے ہیں آج کی صدی کا معجزہ۔ اس کو کہتے ہیں جذبہ ایمانی اور اس کو کہتے ہیں ٹیکنالوجی کا انقلاب۔
معرکہ حق میں فتح حاصل کرنے والی قوم کا یوم آزادی منانے کا انداز بھی مختلف ہوتا ہے۔ 14 اگست ویسے تو ہر سال منایا جاتا ہے لیکن اس دفعہ حصول آزادی سے معرکہ حق تک کے سفر کی کامیابی کی خوشی کا ایک نیا رنگ ہے۔ وزیر اعلی پنجاب محترمہ مریم نواز شریف نے یکم اگست سے چودہ اگست تک روزانہ کی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.