رزق کی تلاش

60

احساس کے انداز

تحریر ؛۔ جاویدایازخان

کہتے ہیں کہ رزق کی تلاش ہر ذی روح کی فطرت (نیچر ) میں بھی شامل ہوتی ہے ۔عجیب اتفاق یہ ہے کہ ہر جاندار دوسرے جاندار کا رزق اور خوراک ہوتا ہے ۔
کہتے ہیں کہ بھوکا درندہ  ہو  یا کوئی  بھی جانور بھوک کی وجہ سے خطرناک بھی ہوجاتا ہے ۔وہ   اپنے اور اپنے بچوں کے لیے رزق کے حصول میں کوئی بھی خطرہ مول لے لیتا ہے ۔بھوک ہر ظلم روا  رکھتی ہے ۔

افریقہ میں ہر صبح  جب ایک ہرن جاگتا ہےتو ہر روز اس کا پہلا خیال یہی ہوتا ہے کہ ہر حال  میں رزق تلاش کرکے پیٹ بھرا جاۓ تو وہ  یہ جانتے ہوۓ بھی کہ اسکی جان کو خطرہ ہوتا ہے ۔
اپنی خوراک اور رزق  کے لیے چرا ہ گاہوں کا  رخ کرتا ہے۔  رزق اسے اپنی جان سے بھی زیادہ پیارا ہوتا ہے ۔وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اسے شیر سے زیادہ تیز دوڑنا ہے، ورنہ وہ شیر کا نوالہ بن جائے گا۔ 
انہی جنگلوں میں ہر صبح ایک شیر بھی جاگتا ہے، وہ یہی سوچتا ہے کہ رزق کہاں سے ملے گا وہ جانتا ہے بھوکے پیاسے ہرن رزق کی تلاش میں کہاں ہو نگے ؟وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اسے ہر حال میں ہرن سے زیادہ تیز دوڑنا ہے، ورنہ وہ بھوکا مر جائے گا۔
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کون ہیں، ہرن یا شیر۔  جب سورج نکلتا ہے تو پھر آپ کو اپنی بقا کی خاطر دوڑنا پڑتا ہے۔یہی نظام قدرت ہے کہ جہاں ہرن جیسے معصوم جانور کو غذا ملتی ہے وہیں شیر جیسے وحشی درندے کو بھی شکار ملتا ہے ۔
دنیا بےشمار جانور  کروڑوں جانداروں کو اپنی خوراک کے طور پر کھاجاتے ہیں  ۔کہتے ہیں کہ گھوڑا گھانس سے یاری لگا لے تو کھاۓ کیا ؟ اور شیر ہرن سے دوستی کرکے بھوکا کیوں مرے ؟ یہ اصول پوری دنیا میں نظام خوراک کو چلا رہا ہے ۔صرف ایک وہیل مچھلی  یومیہ چار ٹن مچھلیاں کھا جاتی ہیں ۔ایک بھورا چمگاڈر ایک گھنٹے میں ایک ہزار مچھر ہڑپ کر لیتا ہے ۔گھروں میں پاۓ جانے والے چھچھوندر اپنے وزن سے نوے فیصد غذا  کھاتا ہے ۔
پرندے بےحسان جانداروں  کیڑے مکوڑوں کو صبح اٹھ کر ہڑپ کرنا شروع کردیتے ہیں ۔جونکیں خون چوستی ہیں اور اپنے شکار کی منتظر رہتی ہیں جب بھی موقع ملتا ہے وہ کئی دنوں کے خون چوس کر اپنی خوراک کا ذخیرہ کر لیتی ہیں ۔سانپ زمیں کے اندر ہی شکار ڈھونڈ لیتا ہے ۔
یہ سب جاندار ہر لمحے اپنی خوراک کی تلاش میں رہتے ہیں ۔اور کبھی بھوک سے نہیں مرتے اور نہ ہی خوراک جمع کرتے ہیں ۔قدرت کا بنایا ہوا نظام ان کے لیے زمین کے اندر ،باہر  ،سمندر اور فضا میں ان کی خوراک مہیا کر دیتا ہے ۔
لیکن کوشش انہیں بھی کرنی پڑتی ہے خوراک کی تللاش میں  جانور اور پرندےہزاروں میل سفر کرتے ہیں ۔اگر غور کریں تو کچھ جاندار  پیدا ہی خوراک بننے کے لیے  محدود زندگی رکھتےہیں ۔وہیل مچھلی ہڑپ کرنے والی مچھلیوں کی عمر یا سائز نہیں دیکھتی ۔رزق کی یہ تلاش ہمیشہ سے جاری ہے اور تاقیامت جاری رہے گی ۔

میں نے ایک مرتبہ اباجی سے پوچھا کہ یہ طاقتور اور بڑے کمزور اور چھوٹوں کو کیوں کھاجاتے ہیں ؟ آخر ہرن  اور خرگوش ہی کیوں شکار ہو جاتا ہے ؟اباجی مسکراۓ اور بولے یہ تم سے کس نے کہا ہے ؟ میں کہا بظاہر تو ایسا ہی نظر آتا ہے کہ ہر طاقتور کمزور کو نشانہ بناکر اپنی غذا بنالیتا ہے ۔
وہ کہنے لگے بالکل غلط ہے کمزور اور معمولی معمولی چیزیں بھی انہیں بڑوں اور طاقتوروں کو اپنی غذا بناتی ہیں ۔کبھی زخمی اور معذور شیر کو پڑے دیکھا ہے جسے زندہ حالت میں ہی حشرات الارض  چمٹ کر کھانا شروع کردیتے ہیں ۔وہیل مچھلی  مر کر انہیں چھوٹی مچھلیوں کی خوراک بنتی ہے جن کو کھاتی ہے ۔
دنیا کے ہر طاقتور کو اسکی موت کے بعد انہیں معمولی چھوٹے بڑے جانوروں کا شکار ہونا ہوتا ہے ۔بات صرف  وقت ،زندگی اور طاقت کی ہوتی ہے ۔کمزوری  اور موت دہشت کا خاتمہ کردیتی ہے ۔جس شیر کی دہشت  کو دیکھ کر ہمارا پیشاب خطا ہو جاتا ہے مرنے کے بعد اسی کی لاش پر بندوق لیے ہم تصویر بنوا رہے ہوتے ہیں ۔
مرے ہوے ٔ کسی بھی خطرناک جانور کو پرند چرند نوچ نوچ کر کھاتے ہیں  اور اسکی بےبسی کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ ابھی وہ خطرناک جانور موت وزندگی کی کشمکش میں  ہی ہوتا ہے کہ  ناجانے کہاں سے گدھ جیسی عجیب  مخلوق وارد ہوتی ہے  انہیں ان کارزق وہاں کھنچ لاتا ہے ۔
جو اردگرد بیٹھ کر اسکی موت کا انتظار کرتی ہے۔یہ گدھ  بعض اوقات تو زندہ اور بےبس جانور کو ہی نوچنے لگ جاتے ہیں اور وہ تکلیف سے چیخنے کےعلاوہ کچھ نہیں کر پاتا ۔انہیں بھی  ویسے ہی رحم نہیں آتا جیسے کسی طاقتور شیر کو اپنے شکار پر نہیں آتا ۔
کسی بھی طاقتور کی موت تمام حشرات الارض  اور کمزورجانوروں کے لیے دعوت عام ہوتی ہے ۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اصل طاقت روح ہے اور روح حکم ربی ہے ۔قانون قدرت یہی ہے کہ ہم سب نے ایک دوسرے کی غذا بن جانا ہے ۔

 کہتے ہیں کہ رزق کو ہم نہیں رزق ہمیں تلاش کرتا ہے ۔ہمارا نبی کریؐم کا فرمان ہے کہ ” بلاشبہ انسان کا رزق اس کو موت سے بھی زیادہ شدت سے تلاش کرتا ہے “۔
 پھر فرمایا ” موت  کو  تم کو تلاش کر ویا نہ کرو بہرحال تمہیں پہنچے گی  یونہی تم رزق کو تلاش کر و یا نہ کرو ضرور پہنچے گا “۔ البتہ رزق کی تلاش سنت ہے اور موت کی تلاش ممنوع مگر ہیں  یہ دونوں یقینی اور برحق  اور اللہ کا حکم ہیں ۔
کہتے ہیں کہ رزق اگر “عقل “اور “چالاکی ” خوبصورتی یا دانائی سے حاصل ہوتا تو جانور  اور بےشمار چرند پرند بھوکے مر جاتے۔اس لیے رزق کی طرف نہیں رزق دینے والے کی جانب دوڑ لگاو ۔ایک اور حدیث مبارک ہے کہ ” ہر انسان کے لیے آسمان میں دو دروازے ہیں ایک سے اس کا عمل اوپر جاتا ہے اور دوسرے سے رزق اترتا ہے ۔
جب بندہ مومن کا انتقال ہو جاتا ہے تو دونوں دروازے اس کی جدائی میں روتے ہیں ۔( ترمذی ) جو ہمارے نصیب میں ہے وہ چل کر آۓ گا اور جو نصیب میں نہیں ہے وہ آکر بھی چلا جاۓ گالیکن اس کا مقصد یہ نہیں کہ ہم رزق کے حصول کی جدوجہد ہی چھوڑ دیں ۔
رزق کی تلاش کے لیے کوشش اور جدوجہد ہمارے نؐبی پاک کی سنت ہے ۔حلال طریقے سے رزق کمانا اور تلاش کرنا فرض ہے اور رزق کمانے کی جدجہد میں مرنا شہادت ہے۔حلال کمائی انسان کھاتا ہے جبکہ حرام کمائی انسان کو کھا جاتی ہے ۔لیکن ہمارا دین ہمیں رزق کے حصول میں ظلم و زیادتی سے منع فرماتا ہے ۔
طاقت کے بل بوتے پر رزق چھیننے اور لوگوں پر زندگی تنگ کرنے سے باز رکھنے کی تلقین کرتا ہے ۔یاد رہے کہ رزق کا تعلق انسان کی قابلیت ،شکل وصورت سے نہیں بلکہ رب کی عطا سے ہوتا ہے ۔اباجی مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ رزق حلال عبادت ہے انسان رزق حلال کھاتا ہے لیکن رزق حرام انسان کو کھا جاتا ہے ۔
ہمارا ایک پنجابی دوست کہتا تھا “روٹی بندہ کھا جاوندی اے ٔ “یعنی حصول رزق کے لیے جدوجہد انسان کو  ختم کر دیتی ہے ۔رزق کے لیے اس دنیا میں انسانوں کے انسان بھی دشمن بن جاتے  ہیں۔
جو اپنی بقا اور ترقی کے لیے دوسروں کا جینا مشکل بنا دیتے ہیں ۔جو  حصول رزق کے لیے آگے بڑھتے ہوے ٔ  دوسروں کو پیچھے دھکیل دیتے ہیں ۔کاش وہ یہ جان سکتے کہ  دنیا کے ہر انسان کے رزق کی ذمہ داری تو ہمارے رب نے خود اٹھائی ہے۔  
وہ کثرت کی خواہش تو کر کے قبروں تک جا سکتے ہیں ۔لیکن  اپنی بھر پور کوشش کے باوجود وہ   کبھی خدا نہیں بن سکتے  جو سب کا رازق ہے ۔بقول بیاض سونی پتی مرحوم  

 تیرہ شبی سے رنگ شفق مانگتے ہیں لوگ

مردوں سے زندگی کی رمق مانگتے ہیں لوگ

انسان کی ہڈیوں سے کشیدہ گیا ہو جو

پینے کے واسطے وہ عرق مانگتے ہیں لوگ

کیوں آپ کی جبیں پہ تفکر کے بل پڑے

دنیا میں اپنے جینے کا حق مانگتے ہیں لوگ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.