کسی بھی قوم کی ترقی کا راز اُس کے نظامِ تعلیم میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ تعلیم فقط کتابوں کا بوجھ، جماعتوں کی حاضری یا امتحانی نمبروں کا کھیل نہیں بلکہ شعور، کردار، تحقیق اور تخلیق کا نام ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں نظامِ تعلیم اپنی اصل روح سے دور ہو چکا ہے۔ یہ اب محض ایک شکایت نہیں رہا بلکہ ایک ایسا اجتماعی المیہ بن چکا ہے جو پورے معاشرے کی فکری اور اخلاقی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہا ہے آج کا طالب علم نمبروں کی دوڑ، رٹے کے نظام اور امتحانی مشینری کا قیدی بن چکا ہے۔ تعلیم کا مقصد نوکری حاصل کرنا اور ڈگری حاصل کر کے والدین اور معاشرے کی توقعات پر پورا اترنا رہ گیا ہے۔ نتیجتاً علم کا وہ فطری جذبہ، تخلیقی صلاحیت، جستجو کی لگن اور فکری پرواز جو ایک طالب علم کے اندر ہونی چاہیے، دم توڑ چکی ہے یہ حقیقت بھی اب ڈھکی چھپی نہیں کہ ہمارے تعلیمی ادارے، خواہ وہ اسکول ہوں، کالجز یا یونیورسٹیاں، زیادہ تر ایسے افراد پیدا کر رہے ہیں جو معاشی دوڑ میں تو کسی حد تک شامل ہو جاتے ہیں، لیکن سماجی، اخلاقی اور تہذیبی میدان میں خالی ہاتھ نظر آتے ہیں۔ ان کے پاس ڈگریاں تو ہیں، مگر سوچنے کا سلیقہ، بات کرنے کی تہذیب اور مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت ناپید ہے نصابِ تعلیم کا مسئلہ سب سے بنیادی ہے۔ ہمارا موجودہ نصاب نہ تو قوم کی ضروریات سے ہم آہنگ ہے، نہ ہی بچوں کے ذہنی ارتقاء اور عصری تقاضوں کو سامنے رکھ کر ترتیب دیا گیا ہے۔ نصاب میں تخلیق، تحقیق، تنقید اور کردار سازی کے عناصر کا فقدان ہے۔ جب تک نصاب میں ان اقدار کا احیاء نہیں کیا جاتا، طلبہ کتابی کیڑے بن کر رہیں گے جو صرف امتحانات پاس کرنے کی مہارت رکھتے ہیں مگر عملی زندگی میں ناکام ثابت ہوتے ہیں دوسرا اہم ستون اساتذہ ہیں۔ استاد محض مضمون پڑھانے والا فرد نہیں بلکہ ایک رہنما، مربی اور فکری رہبر ہوتا ہے۔ لیکن آج کے اساتذہ کو وہ مقام، معاشی تحفظ اور تربیت میسر نہیں جس کے وہ مستحق ہیں۔ خاص طور پر سرکاری اداروں اور دینی مدارس کے اساتذہ کو نہایت معمولی تنخواہوں پر کام کرنا پڑتا ہے، جو ان کی ذہنی یکسوئی اور تدریسی صلاحیت کو بُری طرح متاثر کرتی ہے۔ جب ایک استاد اپنی بنیادی ضروریات کے لیے پریشان ہو، تو وہ طلبہ کی ذہنی و اخلاقی تربیت کیسے کر سکے گا؟اساتذہ کو وہ عزت و وقار دینا ہوگا جو ترقی یافتہ اقوام نے اپنے تعلیمی نظام کی بنیاد کے طور پر اپنایا ہے۔ جن معاشروں میں استاد کو کمتر سمجھا جاتا ہے، وہاں علم کا احترام بھی ماند پڑ جاتا ہے۔ ہمیں نہ صرف اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت پر توجہ دینا ہوگی بلکہ ان کے لیے باوقار تنخواہیں، سہولیات اور معاشرتی عزت کا نظام بھی وضع کرنا ہوگا اسی طرح تعلیمی اداروں کو محض ڈگری تقسیم کرنے والی فیکٹریوں سے نکال کر علم و تحقیق کی تجربہ گاہیں بنایا جانا ضروری ہے۔ آج کے طلبہ کو لیکچرز کی بوریت سے نکال کر تجربات، منصوبہ سازی، ٹیکنالوجی، سماجی خدمات اور بین الاقوامی معیار کی تحقیق کی طرف مائل کرنا ہوگا۔ انہیں وہ پلیٹ فارم دیے جائیں جہاں وہ اپنی مہارتوں کو جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر سکیں طلبہ کو صرف کتابیں پڑھانے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ انہیں سیکھنے، تخلیق کرنے اور خود سے سوچنے کا ہنر سکھایا جائے۔ آج کی دنیا میں وہی قومیں آگے جا رہی ہیں جو اپنی نئی نسل کو علمی ماحول، سائنسی سہولیات اور تخلیقی آزادی فراہم کرتی ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں اب بھی پچاس سال پرانے نصاب اور روایتی طریقہ تدریس کو لازم مانا جاتا ہے مدارس کے فضلاء بھی اسی نظام میں ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، مگر ان کے لیے مناسب تعلیمی پل (bridges) اور آسانیاں فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ وہ جدید تعلیم کی طرف بڑھ سکیں۔ اگر مدارس کے طلبہ کو ایم فل یا پی ایچ ڈی کی سطح تک تعلیم حاصل کرنے میں مالی یا ادارتی رکاوٹوں کا سامنا ہوگا تو ہم ایک بڑی علمی قوت کو ضائع کر رہے ہوں گے۔ ریاست کو چاہیے کہ وہ دینی مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ کے لیے وظائف، سکالرشپس اور داخلے کی سہولیات فراہم کرے تاکہ یہ طبقہ بھی قومی تعمیر میں بھرپور کردار ادا کر سکے ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ تعلیم کو کاروبار بنانے کی جو روش نجی اداروں نے اپنائی ہے، اس پر فوری اور مؤثر قانون سازی کی جائے۔ تعلیم ایک بنیادی انسانی حق ہے، نہ کہ ایک منافع بخش صنعت۔ ریاست کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ ہر بچے کو مفت، معیاری اور باعزت تعلیم فراہم کرے۔ اگر اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں فیسیں اس قدر بڑھا دی جائیں کہ ایک عام طالب علم کے لیے تعلیم حاصل کرنا ناممکن ہو جائے تو پھر ترقی کا خواب محض خواب ہی رہے گا ہمیں وہ وقت یاد رکھنا ہوگا جب تعلیم ذریعہ شعور ہوا کرتی تھی، اب اگر یہ صرف ذریعۂ معاش بن جائے تو قومیں ذہنی افلاس کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اس وقت بھی ملک میں ہزاروں طلبہ ایسے ہیں جو تعلیم ادھوری چھوڑ چکے ہیں، صرف اس لیے کہ وہ اپنے تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ تعلیم کو عام، آسان اور سستا بنانے کے لیے حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافہ، طلبہ کے لیے وظائف، تحقیق کے لیے فنڈز، جدید لیبز اور لائبریریوں کی فراہمی، اور ہر سطح پر تعلیمی اداروں کی اصلاح وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ صرف اسکالرشپ اسکیمیں اور اشتہاری مہمیں کافی نہیں، بلکہ ایک مربوط قومی تعلیمی پالیسی درکار ہے جو صرف کاغذی نہیں بلکہ عملی ہو۔ حکومت اگر واقعی تبدیلی کی دعویدار ہے تو اسے تعلیم پر سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنی چاہیے آج بھی وقت ہے کہ ہم اپنی ترجیحات درست کریں، تعلیم کو محض امتحانات اور گریڈز کا کھیل نہ بنائیں، بلکہ کردار، فکر، تحقیق اور تخلیق کا ذریعہ بنائیں۔ نوجوانوں کو وہ ماحول دیں جہاں وہ علمی فتوحات حاصل