مولانا وحیدالدین خاں اپنی کتاب انسان کی منزل میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ کہا جاتا ہے امریکہ کے ساحل سے ایک سمندری جہاز افریقہ کے لئے روانہ ہوا اٹلانٹک سمندر میں اپنا سفر طے کررہا تھا کہ اچانک سخت طوفان آگیا جہاز ہچکولے کھانے لگا جہاز کے تمام مسافر گھبرا اٹھے۔ تمام لوگ پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر دوڑنے لگے۔ جہاز سمندر کی سطح پر تنکے کی طرح الٹ پلٹ ہورہا تھا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اب وہ جلد ہی ڈوبنے والا ہے۔ اضطراب کے اس عالم میں ایک مسافر ادھر ادھر چل رہا تھا اچانک اس نے دیکھا کہ ایک گوشے میں ایک بچی اطمینان کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہے اور اپنی گڑیا کے ساتھ کھیل رہی ہے مسافر نے اس بچی سے کہا کہ کیا تمہیں خبر ہے کہ یہاں کیا ہو رہا ہے بچی نے معصومیت سے پوچھا کہ کیا ہے۔ مسافر نے جواب دیا کہ ہمارا جہاز شدید طوفان میں گھر گیا ہے اور جلد ہی ڈوبنے والا ہے۔ بچی نے اپنی گڑیا میں مشغول رہتے ہوئے کہا ایسا کبھی نہیں ہوسکتا
You know, my father is the captain of this ship. He is not going to let it sink.
بچی کا یہ واقعہ ایک پکے مذہبی انسان کی تصویر ہے۔ مذہبی انسان کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوتا۔ وہ بحران میں بھی اپنے حواس کو برقرار رکھتا ہے۔ وہ ہمیشہ امید میں جیتا ہے وہ ہر صورتحال میں یہ کہنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے کہ گاڈ آل مائٹی از کیپٹن آف مائی شپ اور وہ خدا اس کے جہاز کو ہر گز ڈوبنے نہیں دے گا۔ مذکورہ واقعہ میں ایک پیغام ہے اور پیغام اپنی نوعیت کا جامع اور منفرد پیغام ہے۔ اس پیغام پر پورا اترنے کے لئے بچہ بننا پڑتا ہے اور بچے کے باپ کو اپنے بچے کے اعتماد پر پورا اترنا پڑتا ہے۔ جہاں تک تو خدائے رب ذوالجلال کا تعلق ہے وہ کبھی بھی اپنے بندے کو تنہا نہیں چھوڑتا ہے۔ وہ تو فرماتا ہے کہ اے بندے جب بھی آپ کسی جگہ پر دونفوس ہوں تو آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ تیسرا میں ہوں اور اگر آپ تین افراد ہوں تو چوتھا آپ کے ساتھ میں ہوتا ہوں۔ کاش اس امر کا ہمیں شعوری احساس ہو جاتا تو ہم بھی دیگر مسافروں کی طرح جہاز کے ڈگمگانے پر مضطرب نہ ہوتے اور مذکورہ بچی کی طرح سکون سے زندگی کا مزہ لے رہے ہوتے۔ تاہم زندگی کا مزہ لینے کے لئے توکل علی اللہ کرنا پڑتا ہے اور انسان جلد باز ہے اور بھلن ہار بھی ہے۔ اس کی سوچ سطحی بھی ہے اور وہ ایک خاص حد تک دیکھ سکتا ہے۔ لہذا جوان اور بچے کی سوچ میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ سوچ کو تبدیل کرنے کے لئے محنت، ریاضت، مجاہدہ اور مراقبہ کرنا پڑتا ہے تب اندر کی کیفیت میں ایک نیا رنگ پیدا ہوتا ہے اور انسان ایک نئے انداز سے سوچنا شروع ہوجاتا ہے۔ پھر تو مولانا روم کے سامنے منگولوں کی توپیں بے معنی ہو جاتی ہیں اور منگول اس بابے کی جرات کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور مولانا روم بچی کی طرح دنیا والوں کو ایک جاندار پیغام دے جاتے ہیں اور وہ پیغام یہ ہے کہ جس کو رب نہ مارے اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے
متذکرہ بالا جہاز کے واقعہ کا ایک اور بھی پہلو ہے اور وہ یہ کہ بچوں کو اپنے باپ پر کتنا اعتماد ہوتا ہے۔ اصل بات ہی اعتماد کی ہے شاید اسی لئے عدم اعتماد کی صورت میں ساری کہانی تلپٹ ہو جاتی ہے اور پھر ہر طرف شور شرابہ۔ ظالم مظلوم بن جاتے ہیں اور حاکم محکوم بن جاتے ہیں۔ عدم اعتماد کی صورت میں تو اپنے بیٹے ہی اپنے والد کو قتل کردیتے ہیں بھائی بھائی کا دشمن بن جاتا ہے۔ دوست دوست کے خلاف میدان عمل میں اجاتا ہے اور میدان کارزار میں نفسا نفسی کا عالم ہوتا ہے۔ عالم چپ سادھ لیتے ہیں اور جاہل عالم کا کردار ادا کرتے ہیں کردار کی تعریف میں بھی ٹکا کے ڈنڈی ماری جاتی ہے یوں بد سے بدکار برا ہو جاتا ہے۔ بہت برا ہوتا ہے اور ہر طرف ہیجان کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ کیفیت بدلنے کے لئے بھی کوئی منفرد کام کرنا پڑتا ہے اور ویسے بھی منفرد کام کرنے کے لئے رندوں کی ضرورت ہے اور رند بھی انگشت بدنداں ہیں اور گہری سوچ میں گم ہیں۔ میراث ہم نے پہلے ہی گم کردی تھی اب ہماری سوچ کو بھی چپ لگ گئی ہے۔ موسیقی کیفیت کو بدل سکتی ہے لیکن طاوس ورباب بقول علامہ اقبال آخر والی سٹیج ہے اور آخر والا معاملہ۔ اللہ معاف کرے۔ ابھی ہم بیٹھے ہیں۔ ہمیں کوئی آکر سمجھا دے کہ اب بیٹھنے کا نہیں کھڑے ہونے کا وقت ہے بلکہ سپیڈ پکڑنے کا وقت ہے اور وقت کسی کا ساتھ نہیں دیتا ہے ہاتھ اور جیبیں جھاڑنا پڑتی ہیں رو دھو کے دکھانے والے دیکھتے رہ جاتے ہیں ہمت اور حوصلہ کی ساری کہانی ہے اور یہ کہانی ہم نے اپنی اگلی نسل کو کر کے دکھانی ہے تب جا کر بچی اپنے باپ کو کیپٹن بھی مانے گی اور اس کو جہاز کے ڈوبنے کا کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ باپ سیانا ہو تو ایک پنجابی کے شاعر کے بقول( جس گھر دا مالک گھر ناں ہووے اس گھر دے سارے نئیں سوندے) سب کو یقییننا جاگنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے ایک ہی جاگ رہا ہو تو باقی بچی کی طرح پرسکون ہوتے ہیں اور سکون میں نیند ٹکا کر آتی ہے۔
مجموعی طور پر ہماری آج کی صورتحال کے پیش نظر کیپٹن کو گہرے سوچ بچار کی ضرورت ہے اور بڑے ہی احتیاط سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ کئی قسم کے طوفانوں کا ہم سامنا کررہے ہیں اور ہمارا جہاز بھی ہچکولے کھا رہا ہے۔ لوگ پریشان اور مضطرب ہیں بلکہ ان کی مایوسی روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ جہاز کے کیپٹن کو فوری اقدامات کر کے اپنے لوگوں کو اعتماد میں لینا ہو گا لوگ کوئی غیر نہیں ہیں اپنے ہیں اور اپنوں کو ساتھ چلانا کوئی مشکل نہیں ہوتا ہے۔ اعتماد بحال ہو جاتا ہے لیکن اس سارے کام کے لئے کچھ کر کے دکھانا پڑتا ہے اور اپنے آپ کی طرف دیکھنا پڑتا ہے کیونکہ آپ ہی اپنی اداوں پہ ذرا غور کریں کے مصداق۔ گھوڑوں کو بھی لگامیں دینے کا وقت ہے بلکہ اسپ انا سے اتر کر سب کے درمیان کھڑے ہونے کا وقت ہے۔ پرانے زخموں پر مرہم رکھنے کا وقت ہے۔ وسائل کو نئے سرے سے حصہ بقدر جثہ تقسیم کرنے کا وقت ہے۔ الزام تراشی چھوڑ کر ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کا وقت ہے۔ قانون کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا وقت ہے۔ ماضی سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کا وقت ہے۔ قربانی کے فلسفے کو پوری طرح پڑھنے کی ضرورت ہے اور پھر قربانی اور وہ بھی اپنی ذات کی قربانی دینے کاوقت ہے۔ زندگی کے سفر کے راستے میں حائل تمام قسم کے بتوں کو بھی قربان کرنے کا وقت ہے۔ یہی وقت ہے اور اس وقت کی نزاکت کو جاننا اور سمجھنا ہم سب کے لئے ضروری ہے۔ ہم سب اپنی اپنی نوعیت کے کیپٹن ہیں اور ہم سب کو اپنے بچوں کے اعتماد پر پورا اترنا ہے تاکہ ہمارے بچے سکون سے گڑیا کے ساتھ کھیلتے رہیں اور سکھ کی نیند سوئیں