فلسطین کا مسئلہ اور عرب ممالک: ایک نیا موڑ.

ڈاکٹر عمرانہ مشتاق

3

فلسطین کا مسئلہ ایک صدی پر محیط خونچکاں داستان ہے، جس میں نہ صرف زمین چھینی گئی بلکہ ایک قوم کی شناخت، آزادی اور خودمختاری بھی روند دی گئی۔ لاکھوں فلسطینیوں کی نسلیں مہاجرت، غلامی، اور جبر کی زندگی گزار چکی ہیں۔ غزہ جو آج دنیا کی سب سے بڑی جیل کہلاتی ہے، ایک بار پھر عالمی سیاست کے تناظر میں موضوعِ بحث ہے۔

حال ہی میں یورپی یونین کے چند ممالک کی طرف سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے جانے کا اعلان، اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دو ریاستی حل کی حمایت نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ عرب میڈیا میں یہ رپورٹس گردش کر رہی ہیں کہ عرب ممالک ایک مربوط پالیسی بنانے کی طرف جا رہے ہیں جس کا مقصد نہ صرف اسرائیل کو فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر مجبور کرنا ہے، بلکہ فلسطینی دھڑوں خصوصاً حماس کو اس منصوبے میں شامل کرنا بھی ہے۔

یہ اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ عرب ریاستیں حماس سے مطالبہ کر سکتی ہیں کہ وہ اپنے ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرے، غزہ خالی کرے اور ایک بین الاقوامی عرب امن فورس کے لیے راستہ دے، تاکہ مسئلے کے حل تک امن قائم رکھا جا سکے۔ اس کے بدلے میں اسرائیل سے مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے، جبکہ تمام عرب اور مسلم ممالک اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کرنے پر غور کریں گے۔

بظاہر یہ ایک عملی منصوبہ لگتا ہے، مگر اس کے کئی حساس پہلو ہیں۔

حماس کو دیے جانے والے اس پیغام کو اگر دباؤ کے طور پر لیا گیا تو یہ ایک نئی خانہ جنگی کی بنیاد بھی بن سکتا ہے۔ حماس کی جدوجہد صرف فلسطینیوں کی نہیں بلکہ بہت سے مسلم عوام کی نظر میں یہ ایک مزاحمتی تحریک ہے۔ ایسے میں عرب ممالک اگر اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے حماس سے اس کی مسلح جدوجہد ترک کرنے کا مطالبہ کریں گے تو عوامی ردعمل سخت ہو سکتا ہے۔

تاریخ شاہد ہے کہ اسرائیل نے ہر معاہدے کے بعد یا تو اپنے وعدے توڑے ہیں یا انہیں اپنی مرضی کے مطابق موڑ دیا ہے۔ ایسی صورت میں فلسطینی عوام اور مزاحمتی گروہ کسی بھی معاہدے پر اندھا اعتماد کیسے کر سکتے ہیں. اگر اسرائیل نے دوبارہ دھوکہ دیا تو کیا عرب ممالک اس کے خلاف کھڑے ہوں گے؟

حالیہ برسوں میں عرب دنیا خود انتشار کا شکار ہے۔ بعض ممالک اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر چکے ہیں، تو بعض اب بھی فلسطینی موقف کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ایسے میں “متحدہ عرب موقف” کی بات کرنا خود ایک چیلنج ہے۔ مزید یہ کہ ایران، ترکی، اور قطر جیسے ممالک کی پالیسی اس منصوبے سے مختلف ہو سکتی ہے۔

دو ریاستی حل ایک خوبصورت نعرہ تو ہے، لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیاں مسلسل بڑھ رہی ہیں، القدس کو اسرائیل اپنا دارالحکومت قرار دے چکا ہے، اور غزہ پر ہر چند سال بعد بمباری کی جاتی ہے۔ کیا ایسے حالات میں ایک آزاد، خودمختار، اور قابلِ عمل فلسطینی ریاست کا قیام ممکن ہے؟

عرب ممالک کا حماس پر ہتھیار ڈالنے کے لیے دباؤ ڈالنا یا غزہ میں بین الاقوامی فورس تعینات کرنا ایک غیر معمولی تبدیلی کی طرف اشارہ ہے۔ مگر اس پالیسی کی کامیابی کا انحصار صرف فلسطینی قیادت کی رضا مندی یا اسرائیلی تسلیم پر نہیں، بلکہ عوامی شعور، عالمی دباؤ، اور عرب اتحاد کی مستقل مزاجی پر ہے۔

فلسطین صرف ایک زمین کا مسئلہ نہیں، یہ مسلمانوں کی اجتماعی تاریخ، عزت، اور غیرت کا مسئلہ ہے۔ اس کا حل صرف سیاسی معاہدوں سے نہیں بلکہ انصاف پر مبنی فیصلوں سے ہی ممکن ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.