ضمیر حیدر ضمیر ایک حساس اور بیدار تخلیق کار

تحریر : فیصل زمان چشتی

1

قدرت جب کسی کو تخلیق کار بنانا چاہتی ہے تو اس کے پہلو میں ایک دردمند اور غمخوار دل لگا کر اس دنیا میں بھیجتی ہے۔ اس کے ساتھ اس کے احساس کی شدت، جذبات کی طاقت اور تمازت، تخلیقی تمکنت، مشاہداتی ذکاوت اور تجزیاتی حسیت عام آدمی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتی ہے اس کا چیزوں اور لوگوں کو دیکھنے سوچنے اور پرکھنے کا انداز بالکل جدا اور منفرد ہوتا ہے وہ جس جہان میں ہوتا ہے اور جن کیفیات سے گزرتا ہے عام آدمی کبھی نہیں سوچ سکتا بالکل اسی طرح ضمیر حیدر ضمیر کو قدرت نے ایک تخلیق کار بنایا اور ان کو وہی اوصاف عطا کئے جو ایک حقیقی تخلیق کار کا خاصہ ہوتے ہیں جن کی بدولت ضمیر حیدر نے اپنے معاشرے میں موجود ارد گرد کے ماحول اور حالات و واقعات کا بغور مطالعہ کیا لوگوں کے رویے اور میل جول کا مشاہدہ کیا۔ زندگی کے راستے پر ملنے والے دکھوں، تکلیفوں ، محرومیوں اور کٹھنایئوں کو اپنی روح میں سمویا اور ان کو کرب کی بھٹی میں کشید کرکے ایسے ایسے اشعار نکالے جن کو سن کر اس بات پر ایمان مزید پختہ ہوجاتا ہے کہ شاعر ہی اپنے عہد کا اصل مورخ ہوتا ہے جو اپنی تخلیق میں اپنی ذات کے کرب کے ساتھ ساتھ معاشرے اور لوگوں کے دکھ کو بیان کرکے انہیں تاریخ کا حصہ بنا دیتا ہے۔ شاعر ہی سماج میں پائے جانے والے تضادات اور ناانصافیوں کو سامنے لاتا ہے اور یہی اس کا منصب بھی ہے۔ ضمیر حیدر کہتے ہیں کہ۔

آدمی آدمی کو کھاتا ہے
بھیڑیا قہقے لگاتا ہے
رات مجھ کو بھی کھا نا جائے کہیں
کوئی کمرے میں پھڑپھڑاتا ہے

جہاں بھر کے جریدوں میں معیشت کے ڈرامے ہیں
بقائے آدمیت پر کوئی کالم نہیں ہوتا

ضمیر حیدر ضمیر کی شاعری آج کے عہد کی آواز ہے، آج کی بات ہے ، آج کی سوچ ہے ، آج کی فکر ہے، ادراک و آگہی کا بیان ہے اور وہ حقائق ہیں، وہ کرب ہے وہ تلخیاں ہیں، وہ احساس ہے، وہ بیانیہ ہے جس میں یہ سب کو بتا رہے ہیں کہ حقیقت کیا ہے، جیون اور اس سے جڑے معاملات کتنے گہرے اور پیچیدہ ہیں۔ زندگی کیا ہے اور فریب_ زندگی کیا ہے، سچ کیا ہے ، جھوٹ کیا ہے ، صحیح کیا اور غلط کیا ہے ان کی شاعری میں عیاں ہے۔ ضمیر حیدر نے جو بھی کہا ہے دل سے کہا ہے جو بھی لکھا ہے دل سے لکھا ہے اور جو بات دل کے نہاں خانوں سے نکلے وہ اثر رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری پرتاثیر ہے اور کیفیات تبدیل کرنے کی صلاحیت سے بھی مالا مال ہے۔ دکھ اور سکھ انسان کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں لیکن دکھوں کا تناسب زندگی میں کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ ایک اور اہم بات کہ دکھ انسان کی شخصیت کو مکمل کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں دکھ کی بھول بھلیوں اور گردش دوراں کے ایام میں یہی مددگار ہوتے ہیں۔ احساس، رشتوں کے تقدس کی پہچان میں مددگار ہوتا ہے۔ دکھوں کی بھٹی سے گزر کر ہی حقیقت سے آشنائی ہوتی ہے۔ اس معاملے پر ضمیر حیدر کہتے ہیں کہ

جس سے جنت بھی چھین لی جائے
یعنی انسان کے بھی کیا کہنے
دکھ سے زندہ ضمیر رہتا ہے
سکھ کے فقدان کے بھی کیا کہنے

گریہ اور عزا داری انسان کی روحانی تربیت کرتے ہیں اسے زندگی کی اونچ نیچ میں ڈھلنے کا ہنر بتاتے ہیں انسان کی شخصیت کی اندر سے تکمیل کرتے ہیں اس میں انکساری کا جذبہ بیدار کرتے ہیں انسان کی شخصیت میں سوز و گداز اور حلاوت پیدا کرتے ہیں اور یہ گریہ اور عزا داری کربلا والوں کے طفیل ہی حاصل ہوتی ہے۔ جس کلام میں گداز نہ ہو وہ پرتاثیر نہیں ہو سکتا وہ دل کو نہیں چھو سکتا۔ دل میں غم ہو تو آنکھ نم رہتی ہے، آنکھ نم رہتی ہو تو کرم ہوتا ہے سوزو گداز نصیب ہوتا ہے اور سوزو گداز سے ہی ہستی کی تکمیل ہوتی ہے۔ زندگی کے حقائق کھلنے لگتے ہیں اور شعور و آگہی کے در وا ہوتے ہیں۔ آل محمد اور اہل بیت اطہار سے محبت و مودت جن کی زندگی کا سرمایہ ہوتی ہے وہی لوگ زندگی کے معانی اور راز_ ہستی سے آشنا ہوتے ہیں، حقیقی زندگی بھی وہی بسر کرتے ہیں۔ ان کی روح اس نسبت کی وجہ سے سر سبز و شاداب رہتی ہے اور اطمینان قلب کی دولت ان کے در پہ پڑی رہتی ہے۔ یہ حق کے متلاشی ہوتے ہیں ان کے الفاظ میں اور ان کی شاعری میں سچ چلتا پھرتا نظر آتا ہے۔ وہ باطل کے آگے ڈٹ جانے کی جرات اور ہمت رکھتے ہیں۔ عزم و استقلال اور صبر و رضا ان کی ذات کا بنیادی وصف ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کربلا والوں سے محبت کرنے والوں کا انداز ہمیشہ جداگانہ ہوتا ہے۔ ضمیر حیدر کی کربلائی نسبت ان کی شاعری میں سوزو گداز پیدا کرتی ہے، اثر پذیری میں اضافہ کرتی ہے اور انہیں زندگی کے دکھوں اور تکالیف کے آگے ڈٹ جانے کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔ یہ اسی لئے کہتے ہیں کہ

بے ضمیران _ جہاں کو قبضہ دریا دیا
حق بجانب ہستیوں کو پیاس کا صحرا دیا
پھر ترے سجاد کو قیدی بناتا ہے جہاں
پھر زمانے نے ترے شبیر کو دھوکہ دیا

ضمیر حیدر کی شاعری میں کئی رنگ ہیں ، کئی شیڈز ہیں اور تہہ داریاں ہیں جو ان کی شاعری کو خوبصورتی عطا کررہی ہیں۔ ایک حقیقی اور جینوئن شاعر ہمیشہ ترقی پسند اور نظریاتی ہوتا ہے وہ معاملات اور مسائل کو کسی اور نظر سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح ضمیر حیدر کا ضمیر زندہ ہے اور جاگ بھی رہا ہے یہ اپنے اردگرد پھیلے ہوئے ظلم اور جبر سے آشنا ہیں ضمیر حیدر یہ جانتے ہیں کہ ظالم کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو اور ظلم کا دورانیہ کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو وہ مظلوم کے رد عمل کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا۔ یہ جانتے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.