اپنی جنم بھومی سے محبت انسانی فطرت ہوتی ہے ۔پھر جہاں ہمارے خاندان کے وہ بزرگ مدفن ہوں جنہوں نے اس سرزمیں کی ترقی کے لیے دن رات ایک کیا ہو تو یہ مٹی اور بھی زیادہ اہمیت حاصل کر لیتی ہے ۔اس دھرتی کے بزرگ اور میرے دادا جان سالار اعظم مجاہدین محمد فیاض خان مرحوم نے دریاۓ سندھ کے کنارے آباد قصبے کوٹ ادو کی معاشرتی ،سیاسی ، سماجی ،مذہبی اور ادبی ترقی کے لیے آج سے ستر سال قبل جو خواب دیکھا اور یہاں پہلی مرتبہ رائفل کلب ،قومی رضاکار تنظیم جیسے ادارے قائم کر کے لوگوں کی عملی خدمت کا آغاز کیا وہ ممبر تحصیل کونسل اور جرگہ ممبر اور چیرمین امن کمیٹی بھی رہے اور ان کی سرپرستی میں سوشل ویلفیر اورگنائزیشن کے تحت کھیلوں کو فروغ دینے کے لیے کہکشاں والی بال کلب کا قیام ہوا جس کا افتتاح نواب بہاولپور سعید الرشید عباسی مرحوم نے اپنے دست مبارک سے کیا اور انہیں کے ایک شاگرد اور ننھے مجاہد شناخت علی زاہد مرحوم نے پریس کلب کی سرگرمیوں کا آغاز کیا ۔پھر فیاض خان کے فرزند بیاض سونی پتی مرحوم اور نیاز کوکب مرحوم جیسے دانشور اور شاعر وں نے جس طرح اس ادبی گلشن کی آبیاری کر کے اس زمین کو ادبی سرگرمیوںکا مرکز بنایا ۔ ان عظیم لوگوں کےنصف صدی قبل دیکھے گئے خواب جب پورے ہوتے ہیں تو ان کی وہ مثالی خدمات ترقی کے ہر موقع پر یاد آ جاتی ہیں ۔کوٹ ادو سے آنے والی کوئی ٹھنڈی ہوا یا اچھی خبر ہمیشہ متوجہ کر لیتی ہے ۔جب سے ضلع کوٹ ادو میں ڈپٹی کمشنر سید منور عباس بخاری صاحب تشریف لاے ہیں ایسی ٹھنڈی ہوائیں اور اچھی خبریں لگاتار آنے لگی ہیں جو ان کی اس علاقے اور لوگوں سے محبت اور دلچسپی کی عکاسی کرتی ہے ۔ایسی ہی ایک خبر گذشتہ دنوں خواتین کے لیے “ٹی ہاوس” میں لیڈیز بلاک کا قیام سامنے آئی تو بےساختہ دل چاہا کہ وہاں کے ان لوگوں کو خراج تحسین پیش کروں جن کی کاوشوں نے اس کام کو ممکن بنایا کیونکہ کوٹ ادو جیسے پسماند ہ شہر میں جہاں آج سے پچاس سال قبل تک یہاں کی خواتین بازاروں اور گلیوں میں بھی پیرا شوٹ برقعوں کے بغیر باہر نہیں آتی تھیں وہاں یہ صنفی مساوات،خواتین کو بااختیار بنانے کی حکومتی پالیسی اور معاشرتی ترقی کا مثبت اقدام ایک بڑی مثبت تبدیلی اور قابل ستائش قدم ہے ۔ٹی ہاوس اور ادبی سرگرمیاں ہمیشہ سے ساتھ ساتھ چلتی آئی ہیں ۔شاعری اور ادبی ترقی میں ٹی ہاوس کا کردار ہمیشہ یادگار رہا ہے ۔
کہتے ہیں کہ چھوٹے قدم ہی بڑے سفر کی طرف لے جاتے ہیں اور اگر یہ قدم کسی نظر انداز خطے میں اٹھے ہوں تو ان کی گونج کہیں زیادہ گہری اور دور رس ہوتی ہے ۔یہ بات کسی معجزے سے کم نہیں کہ جنوبی پنجاب جیسے طویل عرصے سے نظر انداز کئے گئے خطہ میں ایک ایسا تصور حقیقت کا روپ دھارے ،جو عام طور پر صرف بڑے شہروں کا نصیب ہوتا ہے ۔کوٹ ادوجیسے نوزائیدہ ضلع میں خواتین کے لیے مخصوص ہفتہ میں ایک دن “ٹی ہاوس “ کے لیڈیز بلاک کا گذشتہ روز قیام اور ڈپٹی کمشنر کوٹ ادو کے دست مبارک سے باضابطہ افتتاح ایک ایسا انقلابی قدم ہے جو نہ صرف قابل ستائش ہے بلکہ قابل تقلید بھی ہے ۔یہ “ٹی ہاوس “ محض چاۓ کی پیالی کا مقام نہیں بلکہ فکری ابال ،تخلیقی اظہار ،مطالعہ ،مکالمے اور خود اعتمادی کے پروان چڑھنے کی چھوٹی مگر روشن دنیا ہے ۔یہاں لفظ سنوریں گے ،سوچیں نکھریں گیں اورخواب بولنے لگیں گے ۔اس سے یہ پیغام جاتا ہے کہ خواتین کو صرف حقوق نہیں مواقع بھی فراہم کئے جانا کس قدر ضروری ہے ۔کوٹ ادو کی ضلعی انتظامیہ ، ادبی حلقے ،سول سوسائٹی اور پریس کلب کے عہدیداران مبارکباد کے مستحق ہیں کہ ان کی دیرینہ کاوشیں رنگ لائیں اور انہوں نے نہ صرف ایک خساص پہلو کو محسوس کیا بلکہ اس پر عملی قدم اٹھایا ۔یہ اقدام اس لحاظ سے بھی نمائیاں ہے کہ ایسے خطے میں جہاں آج بھی بعض سماجی روایات عورت کی سوچ پر پہرہ بٹھانے کی کوشش کرتی ہیں ،وہاں ایک باوقار ،محفوظ اور باشعور خاتون بیٹھک کی بنیاد رکھنا ایک خاموش انقلاب ہے ۔خواتین کے لیے مخصوص یہ گوشہ مستقبل قریب میں بہت کچھ کرسکتا ہے ۔مشاعرے ،کتاب خوانی ، کتب رونمائی ،ہنر سکھانے والی نشستیں ،نوجوان طالبات کے لیے کیریر رہنمائی ،ذہنی صحت سے متعلق آگاہی مہمات ۔۔سب کچھ یہاں ممکن ہے ۔ضروت صرف مربوط حکمت عملی ،فکری آزادی اور انتظامیہ اور سول سوسائٹی کے مسلسل تعاون اور مدد کی ہوتی ہے ۔
روزنامہ جنگ اور جیو کے نمائندہ اور پریس کلب کوٹ ادو کے سابق صدر حاجی سلیم ریاض خان کے مطابق اس تاریخی موقع پر ڈپٹی کمشنر کوٹ ادو سید منور عباس بخاری نے افتتاحی تختی کی نقاب کشائی کے بعد تقریب میں اپنی افتتاحی تقریر میں کہا کہ پاک ٹی ہاوس میں خواتیں بلاک کا اضافہ ایک انتہائی خوش آئند قد م ہے جو نہ صرف ایک فکری ،تہذیبی اور سماجی سوج کاآغاز ثابت ہوگا بلکہ صنفی امتیاز کے خاتمے میں بھی اہم کردار ادا کرے گا ۔انہوں نے مزید کہا کہ ادب صرف کتابوں میں قید نہیںبلکہ یہ محفلوں میں سانس لیتا ہے ،بحث مباحثہ میں پلتا ہے اور دلوں سے دلوں تک سفر کرتا ہے ۔پاک ٹی ہاوس میں خواتین کے الگ بلاک کا قیام ان خواتین کے لیے بلا جھجھک اپنے خیالات پیش کرنے ،کہانیاں ،نظمیں اور ادبی مکالمے میں فعال کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کرے گا ۔جس گھر میں کتاب نہیں ہوتی وہ قبرستان بن جاتا ہے اور جس معاشرے میں عورت کی آواز دبائی جاۓ وہ اندھیرا بن جاتا ہے ۔ہم روشنی کی بات کر رہے ہیں ۔ہم ایسے ادب کی بات کرہے ہیں جو سب کے لیے ہر ذہن اور ہر دل کے لیے ہو ۔انہوں نے مزید کہا کہ ادب معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے ۔اور ادیب اس آئینے کو صاف رکھنے والا فرد۔۔اگر معاشرے میں صرف ایک صنف چاہے وہ مرد ہو یا عورت ادبی سرگرمیوں میں حصہ لے تو یہ آئینہ آدھا اور دھندلا رہے گا۔ادب کسی صنف کا پابند نہیں اور نہ ہی عورت کا قلم کمزور ہے نہ مرد کی سوچ محدود ہے ۔۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اکثر خواتین کو اپنے خیالات ،جذبات اور تخلیقی صلاحیتوں کو بیان کرنے کے مواقع میسر نہیں آتے ۔یہ اقدام ادبی مساوات کی جانب ایک مضبوط قدم ہے ۔ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ادب کسی خاص صنف کی میراث نہیں ہے بلکہ یہ ہر دل کی آواز ہے جو محسوس کرتا ہے سوچتا ہے اور دنیا کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے ۔انہوں نے جمعہ کا دن لیڈیز بلاک کے لیے مخصوص کرنے کا اعلان بھی کیا ۔
اس اقدام سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگر ارادہ نیک ہو ،وژن واضح ہو اور نیت میں خلوص ہو ،تبدیلی کسی بھی پسماندہ گوشے سے شروع ہو سکتی ہے ۔ہم اہل قلم دل کی گہرائیوں سے اس اقدام کے تمام معماروں خاص طور پر ڈپٹی کمشنر صاحب ،ضلعی انتظامیہ ،ادبی حلقوں اور پریس کلب کے عہدیداروں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔جنہوں نے اس خیال کو صرف تصور نہیں رہنے دیا بلکہ زمینی حقیقت بنا کر دوسروں کے لیے مثال بنا دیا ۔ جو اس سوچ کا عکاس ہے کہ کہ عورت کو باوقار مقام دینا محض نعرہ نہیں عملی طور پر بھی ممکن ہے ۔جنوبی پنجاب جیسے خطے میں جہاں تعلیم ،صحت اور روزگار کے مواقع پہلے ہی محدود ہیں وہاں ایسا کوئی بھی قدم گویا چراغ لے کر اندھیرے میں نکلنے جیسا ہے ۔یہ ٹی ہاوس جنوبی پنجاب کی بچیوں اور بیٹیوں کے لیے محض ایک کمرہ یا گوشہ نہیں بلکہ روشن امکان اور امید کی ایک کھڑکی ہے ۔۔جو کھل چکی ہے اور روشنی پھیلا رہی ہے ہمیں امید ہے کہ یہ چھوٹا سا مرکز مستقبل میں ایک بڑا مرکز دانش ضرور بنے گا ،یہاں سے اٹھنے والی باتیں ،بحثیں اور سوچیں نہ صرف مقامی خواتین کو بااختیار بنائیں گیں بلکہ پورے خطے میں مثبت معاشرتی ارتعاش پیدا کریں گی ۔امید ہے کہ اس ٹی ہاوس سے علم وادب کے وہ سوتے پھوٹیں گے جن سے اس علاقے کا نام مزید روشن ہو گا ۔اور ساتھ ساتھ یہ باقی ان علاقوں کے لیے ایک مثال ہوگی جہاں اب تک ایسی سرگرمیاں موجود نہ ہیں ۔تاکہ حکومت پاکستان کا عورت کا بااختیار بنانے کا عزم پورا ہوسکے ۔اہلیان کوٹ ادو بھی تبدیلی کی اس خاموش دستک کو خوش آمدید کہیں گے ۔