قہقہوں سے اداسی تک

احساس کے انداز تحریڑ ؛۔ جاویدایازخان

1

ریاست بہاولپور کا  مرکزی شہر ڈیرہ نواب صاحب ساٹھ اور ستر کی دھائی تک ایک ماڈرن  اور ترقی یافتہ شہر سمجھا جاتا تھا ۔نواب آف بہاولپور کی رہائش گاہ “صادق گڑھ پیلس ” جسے “وائٹ پیلس “بھی کہا جاتا تھااور اس محل کے گنبد پر  لہراتا ہوا سیاہ   عباسی پرچم دیکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کر دیتا تھا ۔میلوں دور سے دکھائی دینے والی اسلحہ فیکٹری کی چمنی کا بلند و بالا مینار صادق گڑھ پیلس کی نشاندہی کر دیتا تھا ۔محل کا تاریخی شاہی دروازہ آج بھی قابل دید ہے ۔یہاں کی رونق  اور  خوبصورت عمارات اور ہر جانب پھیلے سرسبز  باغات   اور پھولوں سے بھرے راستے دیکھنے کے لیے دور دور سے لوگ آیا کرتےتھے ۔یہاں پورے پاکستان ہی سے نہیں بلکہ شاید پوری دنیا سے آۓ ہوۓ لوگ آباد تھے ۔یہاں کی بے پناہ خوشحالی اور اچھا روزگار انہیں اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے کافی ہوتا تھا ۔یہاں کی آبادی میں ہر رنگ ونسل اور مذہب کے لوگ شامل تھے جن میں  مقامی ہندو مسلم  آبادی کے علاوہ  انگریز ،اینگلو انڈین ،پٹھان ،بنگالی ،پنجابی ،سندھی ۔مہاجر اور بلوچ سب ہی یہاں کی رونق دوبالا کرتے دکھائی دیتے تھے ۔جہاں لوگوں کے چہرے خوشی سے دمکتے دکھائی دیتے تھے ۔گذشتہ روز مجھے اپنے اس شہر جانے کا اتفاق ہوا جس کی دھرتی پر میر بچپن  گزرا  اور جس کی مٹی تلے میرے بزرگ دفن ہیں ۔تو یہاں کی ہر چیز کی زبوں حالی دیکھ کر دکھ  کی ایک لہر سی دوڑ گئی ۔ایک وقت تھا کہ یہاں کی صبح انور جوگی مرحوم کے نعروں اور شام منظور بھایا مرحوم کے قہقہوں سے گونجتی تھی جو  تقریبا” ایک کلو میٹر تک سنائی دیتے تھے ۔ کھیلوں کے پر رونق  گروانڈ  جگہ جگہ دکھائی دیتے جہاں کھیلوں کے ساتھ ساتھ لالہ غلام حسین مرحوم جیسی پر مزاح اور لطیفہ گو شخصیت  لوگوں میں خوشیاں بکھیرتی رہتی ۔ سڑکوں پر رنگ برنگ خوبصورت تانگے بڑے بھلے لگتے تھے ۔آج خاموشی ،اداسی اور مایوسی کے اندھیرے پھیل رہے ہیں ۔لیکن لوگوں کےغربت زدہ چہرےآج بھی خلوص ومحبت سے سرشار ہیں ۔یہ شہر  بہت بڑا تعلیمی مرکز بھی تھا جہاں سے پڑھنے کے لیے دور دور سے لوگ یہاں آتے ۔میں بےشما ر ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جنہوں نے یہاں سے پڑھ کر ملک و قوم کا نام روشن کیا ۔یتیم بچوں کے لیے بہاولپور کا سب سے بڑا دارالاامان بھی یہاں ہوا کرتا تھا ۔جو سرکاری خرچ پر تعلیم حاصل کرتے تھے ۔معذوروں اور لا وارثوں کے لیے سرکاری “صادق سراۓ ” کسی نعمت سے کم نہ تھی ۔یہاں کا خوبصورت اور جدید بازار دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا ۔نئی نسل تو شاید یہ جانتی ہی نہ ہو کہ اس بازار کے اختتام پر سنگ مرمر کا  فوارا  اور چار دیواری کے اندر  پھلواری سے مزین پارک نما ایک خوبصورت  چوک ہوا کرتا تھا ۔ فنون لطیفہ کی سرپرستی کی وجہ سے علاقے بھر کے مایہ ناز فنکار یہاں ایک الگ بستی میں آباد تھے جو بعد میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی شان بن گئے ۔

جی ہاں ! ڈیرہ نواب صاحب میرا شہر ریاست بہاولپور کا وہ جگمگاتاہوا مرکزجو کبھی  یہاں کے  نوابوں کا مسکن ،خوشحالی ،تہذیب اور ثقافت کی روشن علامت ہوا کرتا تھا ۔آج زوال ،ویرانی ا،اداسی ور بےبسی کی تصویر دکھائی دیتا ہے ۔یہاں کی  پر شکوہ عمارات اور محلات گر کرخاموش ہو چکے ۔باغات سوکھ گئے ، یہاں کی خوبصورتی  رہائشی آبادی کے بوجھ  تلے دب چکی ہے ،تعلیمی ادارۓ زوال کا شکار  اور عوام امیدوں کے ملبے تلے دبی بیٹھی ہے ۔یہ وہی شہر ہے جہاں ریاست کی دھڑکن سنائی دیتی تھی ۔آج وہاں صرف ماضی کی صدائیں گونجتی ہیں ۔یہ شہر جو کبھی ریاست کی پہچان تھا آج بے یادگی کی تصویر ہے ۔۔۔۔یہ وہی شہر ہے جہاں سے ریاست کے فیصلے صادر ہوتے تھے اور یہاں کے باسی  فخر سے کہتے تھے “ہم ریاست بہاولپور کے دل میں بستے ہیں ”  ۔یہاں مہمان نوازی ایک روایت تھی ،جہاںہنر ،ادب ،زراعت اور خوش اخلاقی شہر کا طرہ امتیاز تھی ۔مگر اب یہاں ماضی کی صدائیں تو سنائی دیتی ہیں  لیکن مستقبل کی کوئی آہٹ نہیں آتی ۔یہاں کا خوبصورت ترین ڈاکخانہ اور بنک بند ہو چکا یہاں کا تاریخی ریلوےاسٹیشن کھنڈر بن چکا ہے ۔بڑے بڑے باغات  رہائشی کالونیوں میں بدل چکے ہیں ۔بےروزگاری  اور غربت ہمیشہ جرائم اور نشے کو جنم دیتی ہے ۔یہاں کے یہ قہقہے کیسے مایوسی کے اندھیروں میں ڈوبے یہ ایک طویل اور دردناک داستان ہے۔

سوال اہم ہے کہ آخر ریاست کے باقی علاقوں کی نسبت ڈیرہ نواب صاحب ہی کیوں پس منظر میں چلا گیا ہے ؟ کیا یہ حکمرانوں کی ترجیحات کا مسئلہ ہے ؟ یا پھر یہاں کی عوام  نے خود بھی اپنی آواز کو دبا دیا ہے ؟ اکثر مقامی افراد یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں  کہ “ہمیں ووٹ مانگنے کے سوا کوئی یاد نہیں کرتا ” ؟ یہی جملہ اس پورے المیے کا خلاصہ ہے کہ عوام نہ صرف بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں بلکہ ان کے خواب بھی اب سیاسی نعرہ بن کر رہ گئے ہیں ۔المیہ یہ ہے کہ  نہ حکومت نے توجہ دی ،نہ اہل شہر نے احتجاج کیا اور یوں صدیوں پرانی تہذیبوں  کا یہ نگر وقت کی دھول میں کھو کر رہ گیا ہے ۔ڈیرہ نواب صاحب اب بھی ماضی کے عکس  لیے کھڑا ہے ۔اس کے زخم بولتے نہیں مگر چپ چاپ روتے ضرور ہیں ۔یہ شہر اپنے باسیوں سے صرف ایک سوال کرتا ہے ۔” کیا تم مجھے پھر سے وہی بنا سکو گے جو میں کبھی  ہوا کرتا تھا “؟یہ سوال آج ہم سب کے سامنے ہے اور اس کے جواب میں یا تو خاموشی ہوگی یا پھر اس کی عظمت کی بحالی کا عزم  جو مجھے یہاں کے نوجوانوں کے چہروں پر دکھائی دیتا ہے ۔ریاست کے پاکستان سے الحاق کے بعد جہاں کچھ علاقوں کو قومی ترقیاتی منصوبوں میں ضم کرکے خوشحال بنایا گیا وہیں ڈیرہ نواب صاحب جیسا تاریخی شہر بتدریج حکومتی ترجیہات سے نکلتا گیا۔ شاہی محلات جنہیں ثقافتی ورثہ قرار دے کر محفوظ کیا جاسکتا تھا آ ج ویرانی کا شکار ہیں ۔شاہی گیسٹ ہاوس اور قدیم عمارتیں آج مٹی ،کائی اور خاموشی میں ڈوبی ہیں ۔نہری نظام جو ایک زمانے میں ڈیرہ نوابصاحب کی زرعی خوشحالی کا ضامن سمجھا جاتا تھا آج پانی کی قلت ،ٹوٹ پھوٹ اور نااہلی کا شکار ہے ۔تعلیمی ادارے  جن سے کبھی علم کے چراغ روشن ہوتے تھے اب زوال کی تاریکیوں میں ڈوب چکے ہیں ۔ راستے  اور گزرگاہیں ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔پہلے تمام چکوک اوردیہاتوں کا راستہ یہاں سے گزرتا تھا لیکن اب ڈیرہ نواب صاحب گزر کاہ  نہیں رہی  ایک الگ تھلگ علاقہ بن چکا ہے ۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم اسے ماضی کی ایک یاد بننے دیں ؟ یا پھر امید ،جدوجہد اور شعور سے  اسے زندگی ،ثقافت اور شناخت کی طرف لوٹائیں ؟ کیا بحالی ممکن ہے ؟ یقینا” اگر حکومت ،مقامی انتظامیہ ،سول سوسائٹی اور نوجوان نسل مل کر  ڈیرہ نواب صاحب کے ثقافتی اور تاریخی ورثے کو اجاگر کرنے کی مخلصانہ کوشش کریں تو   یہاں کی سیاحت کو فروغ دیا جاسکتا ہے ۔تاریخی عماتوں کو بحال کرکے ثقافتی مرکز بنایا جاسکتا ہے ۔زراعت کے لیے نہری نظام کی بحالی اور جدید ٹیکنالوجی  کا استعمال ممکن بنایا جاسکتا ہے ۔انڈسڑی اور کاروبار  کا رخ اس جانب موڑا جاسکتا ہے تعلیمی اداروں کو اپ گریڈ کرکے علمی ماحول کو واپس لایا جاسکتا ہے ۔اور سب سے بڑھ کر عوامی شعور کو جگا کر ڈیرہ نواب صاحب کو پھر سے  جنوبی پنجاب کی پہچان بنایا جاسکتا ہے ۔آج بھی ڈیرہ نواب صاحب شہر  سے سڑکیں گزارکر رونقیں پھر سے بحال کی جا سکتی ہیں ۔

یہاں کی عوام عباسی خاندان سے ان کی بےپناہ شرافت ،وضع داری اور اپنے عوام سے محبت کی وجہ سے ان کی بےحد عزت ،احترام اور والہانہ محبت  وعقیدت رکھتی ہے ر ہمیشہ اپنے علاقائی مسائل کے حل اور ترقی کے لیے ان کی نگاہیں صادق گڑھ پیلس اور اسکے باسیوں کی طرف  ہی دیکھتی ہیں ۔یہاں کی سیاست کا محور ہمیشہ عباسی خاندان رہا ہے۔آج پاکستان کی بدلتی صورتحال میں جب پاکستان کی کل آبادی کا  ستر فیصد  حصہ نوجوانوں  پر مشتمل ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ  آئندہ سیاست میں ملک کی باگ دوڑ نوجوانوں  تک پہنچنے والی ہے ۔ایسے میں عباسی نوجوان ولی عہد امیر آف بہاولپور بہاول خان عباسی کی  علاقائی سیاست میں آمد اور نوجوانوں سے برہ راست تعلق  امید کی ایک کرن ہے کہ ہماری علاقائی سیاست اب پرانے سیاست دانوں کی طرز سیاست سےنکل کر نوجوانوں کی نئی سوچ اپنا لے گی ۔یہ پرعزم نوجوان قیادت نواب بہاول خان عباسی کی رہنمائی میں  تیزی سے   اپنے ہمراہ نوجوانوں کی ٹیم کے ساتھ لوگوں سےسماجی رابطے  بڑھا رہے ہیں ۔جو نوجوان طبقے میں انکی مقبولیت میں اضافے کا باعث بن رہا ہے ۔نوجوان روائتی  سیاست سے ہٹ کر خود آگے آنا چاہتے ہیں ۔وہ اپنے اور قیادت کے درمیانی فاصلے مٹانا چاہتے ہیں ۔نوجوان براہ راست ان کی قیادت میں سیاسی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں ۔ نواب بہاول خان عباسی نے یقینا” طرز سیاست کو بدلا ہے اور نوجوان قیادت کو آگے لانے کے لیے ان سے سماجی وسیاسی تعلقات میں بےپناہ اضافہ کردیا ہے ۔ایک تو ان کا پہلے سے موجود خاندانی وقار اور عزت اور پھر دوسرا عوامی سطح پر گھل مل جانا اس بات کی دلیل ہے کہ پورے ملک کی طرح  یہاں کی سیاست بھی بدل رہی ہے اور یہاں کے نوجوانوں کی یہ نئی سوچ  اور پرعزم نوجوان قیادت یہاں کی ادسیاں اور مایوسیاں بہت جلد خوشخبر ی میں بدل سکے گی ۔علاقے اور لوگ تب ہی ترقی کرتے ہیں جب سوچ بدلتی ہے ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.