دنیا انسانوں کے سمندر کو بے قرار کرنے کے لیے تشکیل دی گئی۔ مٹی کے پتلے عشق کی آگ میں کودنا چاہتے ہیں ، عشق کی انتہا چاہتے ہیں اور محبوب کے وصل کی امید میں عمر گزر جاتی ہے ۔ پیروں میں چھالے پڑ جاتے ہیں آنکھوں میں امید اور یاس کے جگنو چمکتے رہتے ہیں ، مگر اکثر انسانوں کے ہاتھوں کی لکیروں میں کوئی ایسا نہیں ہوتا جو سچی محبت کرئے شاید کچھ لوگ خوش قسمت ہوں گے جنہیں عشق کے سمندر کی گہرائی میں موتی چننے کا موقع ملا ہو ایسا ہوتا ہے کیا ؟ اگر ہے تو کہاں ؟ مشاہدہ تو کہتا ہے کہ یہ دنیا محبت کے نام پر کئی گناہ کرواتی ہے ۔ دنیاوی چیزوں سے محبت ہو یا انسانی جسم سے یا انسانی شخصیت سے ہر محبت گناہ کی دلدل میں لے جاتی ہے شرک اور پوجا کی دنیا کا سفر کرواتی ہے، مگر گنہگار رب کے اور زیادہ قریب ہو جاتا ہے کیونکہ وہ جسم، دل و دماغ کے سفر میں سراب کا پیچھا کرتے کرتے حقیقت کی دنیا میں قدم رکھ دیتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ عشق صرف رب سے ہی ہو سکتا ہے اور رب ہی کر سکتا ہے دنیا تو دل بہلانے کے کھلونے ہیں اور کھلونوں کو سنبھال کر رکھنا چاہئے ۔ کچھ کھلونے زخم دیتے ہیں، کچھ دھوکہ، کچھ ہنسی اڑاتے ہیں اور کچھ دل بہلاتے ہیں مگر کھلونے صرف وقت گزارنے اور دل کی دھڑکنوں کو قابو میں رکھنے کے دلچسپ ہتھیار ہیں، کبھی دل کی دھڑکن رک جاتی ہے کبھی تیز چلتی ہے کبھی اداسیوں کی وادیوں میں سفر کرتی ہے مگر خوابوں کی دنیا عجیب ہوتی ہے حقیقت کی آنکھ کھلتے ہی حیرت کے سمندر کی لہروں کو خاموشی سے سمجھنے کی کوشش میں ریت کی مانند بند ہتھیلی سے زندگی پھسلنے لگتی ہے انسان کی پوجا کرنے کے بعد بھی خالی ہاتھ یہ بتاتے ہیں کہ کوئی ذات ہے جو بن مانگے عشق کا نور برسا رہی ہے اور انسان کتنا معصوم ہے سراب کا پیچھا کرتے کرتے تھک جاتا ہے اور یہی ہماری حماقت ہے حماقتیں بھی قسمت ہوتی ہیں قسمت کے پنوں پر لکھی تحریریں واضح ہونے کے باوجود انسان اپنی مٹی میں ضد کی کھنک رکھتا ہے دھوکہ بھی اسے پیاس کے کشکول میں چاندی کے سکے لگتا ہے ۔ کان بھی عجیب ہوتے ہیں جھوٹ سننا ان کا شیوہ اور لگن ہے کیونکہ ان کانوں کو دل سے کھیلنے کی عادت ہوتی ہے جبکہ دل ایک بے چین اور پیاسا بچہ ہے جو بلک بلک کر محبت کا ساگر اور جام پینے کے لئیے بے قرار رہتا ہے محبت کا نہ ملنا عنایت ہے یا آئینہ ء ذات کہ ذات جب اپنی اوقات سے زیادہ خواب دیکھنے لگتی ہے تو آسمان کی بلندیاں اسے زمین کی گہرائیوں میں دفن کر دیتی ہیں اور یہی زندگی کا فنا ہونا ہے یہی انجام سراب ہے اور پیاسی روح اس دنیا کی سیر کر کے اپنی منزل کی طرف پرواز کر جاتی ہے جہاں اس کی آنکھیں ایک نئے اور ابدی مقدر کے انتظار میں خوفزدہ رہتی ہیں۔ رب کا کرم یہ ہوتا ہے کہ جب روح دنیا کی آسائشوں کی طلبگار ہو ، گناہ کی دلدل میں قدم رکھنے لگے تو اللہ اس کے خواب توڑ دیں اور روح دنیا کی طلبگار نہ رہے بلکہ ہر وہ کام کر لے جو رب کی رضا پر مبنی ہو ، تا کہ ابدی زندگی میں وہ تمام نعمتیں مل جائیں جو دنیا میں ایک خواب یا سراب تھیں انسیت، الفت، محبت، چاہت، عشق، جنون اور جذب روح کی منزل ہے۔ اس منزل کے حصول کے لیئے مٹی کے گھر میں خود پسندی کے بت توڑنا ہی زندگی ہے ، دل چاھتا کہ جھوٹی اناؤں کے بتوں کو فنا کے گھاٹ اتار دوں ، مگر ہمارا معاشرتی جھوٹی اناؤں کی سولیوں پر لٹکا ہوا ہے ، مرض سے نجات مسیحا دلانے میں پوری حکمت برتتا ہے لیکن
عزرائیل کو یہ ضد ہے کہ جاں لے کے ٹلوں
سر بہ سجدہ ہے مسیحا کہ میری بات رہے