پاکستان میں تعلیم کا شعبہ ایک طویل عرصے سے نظرانداز ہوتا آیا ہے، جس کے نتیجے میں لاکھوں بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور تعلیمی معیار مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ 10 جون 2025 کو پیش کیے جانے والے وفاقی بجٹ میں تعلیم کے لیے کی جانے والی ممکنہ کوششوں پر نظر ڈالنا اور اس کے ساتھ ساتھ درکار اصلاحات پر غور کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔موجودہ وفاقی بجٹ میں آمدہ معلومات کے مطابق وفاقی حکومت نے تعلیمی امور اور خدمات کے لیے 103.78 ارب روپے مختص کیے ہیں، جو گزشتہ مالی سال کے 103.68 ارب روپے کے مقابلے میں محض 0.9 فیصد اضافہ ہے اور اعلیٰ تعلیم کے لیے 66.3 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جو گزشتہ سال کے 59.7 ارب روپے کے مقابلے میں 11 فیصد اضافہ ہے جبکہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے لیے 25.75 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جو گزشتہ سال کے 8.5 ارب روپے کے مقابلے میں 203 فیصد اضافہ ہے جو کہ کچھ مناسب معلوم ہوتا ہے۔صوبہ پنجاب میں آبادی میں بہت تیزی کے ساتھ اضافہ جاری ہے جبکہ سابقہ ادوار میں تعلیمی اصلاحات میں بہت سسستی دکھائی گئی مگر موجودہ صوبائی حکومت جو کہ محترمہ مریم نواز شریف کی قیادت میں قائم ہوئی ہے تعلیمی میدان میں کام کرتی نظر آ رہی ہے اور چیف منسٹر مریم نواز ذاتی دلچسپی لیتی نظر آ رہی ہیں ۔پنجاب حکومت نے مستحق اور ذہین طلباء کی مدد کے لیے مختلف وظائف کے پروگرامز متعارف کرائے ہیں۔ پنجاب ایجوکیشنل انڈومنٹ فنڈ (PEEF) کے تحت اب تک 4,90,000 سے زائد وظائف دیے جا چکے ہیں، جن کا مقصد مستحق اور ذہین طلباء کو تعلیمی مواقع فراہم کرنا ہے اسی طرح پنجاب حکومت نے اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے مستحق طلباء کے لیے بھی وظائف کا اجراء کیا ہے، تاکہ وہ تعلیم حاصل کر سکیں۔امید ہے یہ سلسلہ مزید بہتری کے ساتھ جاری رہے گا۔
پنجاب حکومت نے طلباء کو ڈیجیٹل تعلیم کی سہولت فراہم کرنے کے لیے “وزیراعلیٰ پنجاب لیپ ٹاپ اسکیم 2025” کا بھی آغاز کیا ہے اور اس سکیم کے تحت 1,10,000 جدید ترین لیپ ٹاپس (13ویں جنریشن، Core i7) تقسیم کیے جا رہے ہیں، اس سکیم میں 2,000 لیپ ٹاپس اقلیتی طلباء کے لیے مختص کیے گئے ہیں جو بہت ہی احسن قدم ہے۔ اس سب کے باوجود پاکستان کی تعلیم پر مجموعی اخراجات جی ڈی پی کا صرف 1.5 فیصد ہیں، جو خطے میں سب سے کم ہے۔جس کی وجہ سے ملک میں لاکھوں بچے اسکولوں سے باہر ہیں، خاص طور پر دیہی علاقوں میں لیکن شہروں کی حالت بھی قابل ستائشیں نہیں۔پاکستان بھر میں تعلیم کے میدان میں بہت ساری کمزوریاں ہیں جس میں سب سے اہم اساتذہ کی تربیت کا فقدان اور اس کے ساتھ غیر متوازن نصاب تعلیمی معیار کو متاثر کر رہا ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک تعلیم کے بجٹ کو جی ڈی پی کے کم از کم 4 فیصد تک نہ بڑھایا گیا ہمارا تعلیم کا بنیادی ڈھانچا اسی طرح دگرگوں رہے گا کیونکہ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ اساتذہ کی تربیت اور سکول و کالج کی سطح پر سہولیات میں بہتری لائے بغیر بہتری پیدا ہو سکے لہذا سب سے پہلے اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت کے لیے خصوصی پروگرامز متعارف کرائے جائیں۔دیہی اور پسماندہ علاقوں میں اسکولوں کی تعمیر، سہولیات کی فراہمی اور اساتذہ کی تعیناتی کے ساتھ ساتھ موجودہ عالمی حالات و تقاضوں کے پیش نظر ڈیجیٹل تعلیم، آن لائن کلاسز، اور ای-لرننگ پلیٹ فارمز کو فروغ دیا جائے۔
غریب اور مستحق طلباء کے لیے وظائف اور مالی امداد کے پروگرامز زیادہ سے زیادہ متعارف کرائے جائیں تاکہ وہ بھی تعلیم جاری رکھ سکیں۔پاکستان کے موجودہ معاشرتی حالات اس چیز کے بھی متقاضی ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو جدید تقاضوں کے مطابق سائنسی، تکنیکی، اور اخلاقی تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں کیونکہ تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کی بنیاد ہے لہذا بہتر تعلیمی ماحول سے ہی ہم ایک روشن، ترقی یافتہ پاکستان کا خواب حقیقت میں بدل سکتے ہیں۔