مئی 2025 کی ابتدا جنوبی ایشیا کے لیے ایک نازک موڑ ثابت ہوئی۔ بھارت کی جانب سے مبینہ طور پر پہلگام حملے کو جواز بنا کر پاکستان کے خلاف “آپریشن سندور” کے نام سے گھٹیا اور ناکام ترین کاروائی کی گئی جو کہ نہ صرف عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی تھی بلکہ انڈیا کے اس عمل نے خطے کے امن و استحکام کو بھی شدید خطرے سے دوچار کر دیا۔لیکن پاکستان نے اس بار صرف ردعمل نہیں دیا، بلکہ ایک مکمل حکمت عملی پر مبنی اور مربوط دفاعی و سفارتی جواب دیا۔ایسا جواب جو نہ صرف دشمن کے عزائم کو خاک میں ملا گیا، بلکہ عالمی برادری کو بھی پاکستان کے مؤقف کی حقانیت پر قائل کر گیا۔بھارت نے فضائی حملوں کے ذریعے آزاد کشمیر کے علاقے مظفرآباد ،کوٹلی کے علاوہ مریدکے ،بہاول پور اور سیالکوٹ کی شہری آبادی کو نشانہ بنایا۔ ان حملوں کی وجہ سے شہری تنصیبات اور عبادت گاہوں کو نقصان پہنچا۔ مگر پاکستان نے فوری، متوازن اور نپے تلے انداز میں جواب دیا۔ پاکستان ایئر فورس نے دشمن کے پانچ جنگی طیارے،جن میں تین رافیل، ایک میگ-29، ایک سو-30 ایم کے آئی اور ایک اسرائیلی ساختہ ڈرون شامل تھا مار گرائے۔
پاکستانی فوج نے بھی زمین پر دشمن کی نقل و حرکت کو مؤثر طریقے سے روکا اور لائن آف کنٹرول پر کئی اہم بھارتی چیک پوسٹوں کو تباہ کیا۔ دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کا یہ جوابی حملہ صرف فوجی کامیابی نہیں، بلکہ ایک اسٹریٹجک پیغام بھی تھا کہ پاکستان نہ صرف اپنی سالمیت کا دفاع کر سکتا ہے بلکہ مؤثر انداز میں دشمن کو جواب بھی دے سکتا ہے۔اس دوران جہاں ایک طرف بھارت عالمی برادری کو گمراہ کرنے کی کوششوں میں مصروف رہا، وہیں پاکستان نے عالمی فورمز پر نہایت سلیقے اور دلائل کے ساتھ اپنا کیس پیش کیا۔ اقوام متحدہ، او آئی سی اور متعدد یورپی و مشرقِ وسطیٰ ممالک کو بھارت کی جارحیت کے شواہد فراہم کیے گئے۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے دونوں ممالک سے تحمل کی اپیل کی، لیکن بین السطور یہ پیغام واضح تھا کہ پہل بھارت کی جانب سے ہوئی ہے۔ ایران، ترکی، چین، روس اور سعودی عرب سمیت کئی ممالک نے پاکستان کی پُرامن کوششوں کو سراہا۔ ایرانی وزیر خارجہ کا دورہ اسلام آباد اور ثالثی کی پیشکش عالمی سفارت کاری میں پاکستان کی کامیابی کی عکاس ہے۔دوسری طرف بھارت عالمی سطح پر اپنی پوزیشن کو مؤثر انداز میں پیش کرنے میں بری طرح ناکام رہا۔ انڈس واٹر ٹریٹی کی یکطرفہ معطلی اور کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھارت کے خلاف عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے کا باعث بنیں۔ کشمیر میں کریک ڈاؤن، ہزاروں نوجوانوں کی گرفتاری اور میڈیا پر پابندیوں نے بھارت کے جمہوری دعووں کو بے نقاب کیا۔پاکستان نے واضح کیا کہ وہ امن چاہتا ہے، لیکن اپنی خودمختاری اور شہریوں کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے متعدد بار باور کروایا کہ “ہم خطے میں امن کے خواہاں ہیں، لیکن اگر کوئی ہمارے صبر کو ہماری کمزوری سمجھے گا، تو ہم اس غلط فہمی کو دور کرنا بخوبی جانتے ہیں۔”
موجودہ صورتحال میں افواج پاکستان کی عسکری برتری کے مظاہرے کے ساتھ ساتھ پاکستان نے سفارتی، عسکری اور اخلاقی تینوں محاذوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کامیابی کا راز قومی وحدت، عسکری تیاری، اور عالمی سفارتی حکمت عملی میں مضمر ہے۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ریاست ہے، جو نہ صرف اپنے دفاع کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے، بلکہ عالمی امن کے لیے بھی سنجیدہ ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ اب اس امر اشد ضرورت ہے کہ پاکستان اپنی اس سفارتی کامیابی کو ایک مسلسل پالیسی کا حصہ بنائے، کشمیر کے مقدمے اور پانی کے مسلئے کو مزید مؤثر انداز میں اٹھائے اور عالمی طاقتوں کو بھارت کی جارحیت کا حقیقت پسندانہ چہرہ دکھاتا رہے۔
مئی 2025 کی ابتدا جنوبی ایشیا کے لیے ایک نازک موڑ ثابت ہوئی۔ بھارت کی جانب سے مبینہ طور پر پہلگام حملے کو جواز بنا کر پاکستان کے خلاف “آپریشن سندور” کے نام سے گھٹیا اور ناکام ترین کاروائی کی گئی جو کہ نہ صرف عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی تھی بلکہ انڈیا کے اس عمل نے خطے کے امن و استحکام کو بھی شدید خطرے سے دوچار کر دیا۔لیکن پاکستان نے اس بار صرف ردعمل نہیں دیا، بلکہ ایک مکمل حکمت عملی پر مبنی اور مربوط دفاعی و سفارتی جواب دیا۔ایسا جواب جو نہ صرف دشمن کے عزائم کو خاک میں ملا گیا، بلکہ عالمی برادری کو بھی پاکستان کے مؤقف کی حقانیت پر قائل کر گیا۔بھارت نے فضائی حملوں کے ذریعے آزاد کشمیر کے علاقے مظفرآباد ،کوٹلی کے علاوہ مریدکے ،بہاول پور اور سیالکوٹ کی شہری آبادی کو نشانہ بنایا۔ ان حملوں کی وجہ سے شہری تنصیبات اور عبادت گاہوں کو نقصان پہنچا۔ مگر پاکستان نے فوری، متوازن اور نپے تلے انداز میں جواب دیا۔ پاکستان ایئر فورس نے دشمن کے پانچ جنگی طیارے،جن میں تین رافیل، ایک میگ-29، ایک سو-30 ایم کے آئی اور ایک اسرائیلی ساختہ ڈرون شامل تھا مار گرائے۔
پاکستانی فوج نے بھی زمین پر دشمن کی نقل و حرکت کو مؤثر طریقے سے روکا اور لائن آف کنٹرول پر کئی اہم بھارتی چیک پوسٹوں کو تباہ کیا۔ دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کا یہ جوابی حملہ صرف فوجی کامیابی نہیں، بلکہ ایک اسٹریٹجک پیغام بھی تھا کہ پاکستان نہ صرف اپنی سالمیت کا دفاع کر سکتا ہے بلکہ مؤثر انداز میں دشمن کو جواب بھی دے سکتا ہے۔اس دوران جہاں ایک طرف بھارت عالمی برادری کو گمراہ کرنے کی کوششوں میں مصروف رہا، وہیں پاکستان نے عالمی فورمز پر نہایت سلیقے اور دلائل کے ساتھ اپنا کیس پیش کیا۔ اقوام متحدہ، او آئی سی اور متعدد یورپی و مشرقِ وسطیٰ ممالک کو بھارت کی جارحیت کے شواہد فراہم کیے گئے۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے دونوں ممالک سے تحمل کی اپیل کی، لیکن بین السطور یہ پیغام واضح تھا کہ پہل بھارت کی جانب سے ہوئی ہے۔ ایران، ترکی، چین، روس اور سعودی عرب سمیت کئی ممالک نے پاکستان کی پُرامن کوششوں کو سراہا۔ ایرانی وزیر خارجہ کا دورہ اسلام آباد اور ثالثی کی پیشکش عالمی سفارت کاری میں پاکستان کی کامیابی کی عکاس ہے۔دوسری طرف بھارت عالمی سطح پر اپنی پوزیشن کو مؤثر انداز میں پیش کرنے میں بری طرح ناکام رہا۔ انڈس واٹر ٹریٹی کی یکطرفہ معطلی اور کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھارت کے خلاف عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے کا باعث بنیں۔ کشمیر میں کریک ڈاؤن، ہزاروں نوجوانوں کی گرفتاری اور میڈیا پر پابندیوں نے بھارت کے جمہوری دعووں کو بے نقاب کیا۔پاکستان نے واضح کیا کہ وہ امن چاہتا ہے، لیکن اپنی خودمختاری اور شہریوں کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے متعدد بار باور کروایا کہ “ہم خطے میں امن کے خواہاں ہیں، لیکن اگر کوئی ہمارے صبر کو ہماری کمزوری سمجھے گا، تو ہم اس غلط فہمی کو دور کرنا بخوبی جانتے ہیں۔”
موجودہ صورتحال میں افواج پاکستان کی عسکری برتری کے مظاہرے کے ساتھ ساتھ پاکستان نے سفارتی، عسکری اور اخلاقی تینوں محاذوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کامیابی کا راز قومی وحدت، عسکری تیاری، اور عالمی سفارتی حکمت عملی میں مضمر ہے۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ریاست ہے، جو نہ صرف اپنے دفاع کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے، بلکہ عالمی امن کے لیے بھی سنجیدہ ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ اب اس امر اشد ضرورت ہے کہ پاکستان اپنی اس سفارتی کامیابی کو ایک مسلسل پالیسی کا حصہ بنائے، کشمیر کے مقدمے اور پانی کے مسلئے کو مزید مؤثر انداز میں اٹھائے اور عالمی طاقتوں کو بھارت کی جارحیت کا حقیقت پسندانہ چہرہ دکھاتا رہے۔