حالیہ جنگی کشیدگی کے بعد پاکستان کے لیے یہ وقت سفارتی حکمت عملی کو ازسرنو ترتیب دینے کا ہے اور ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر پاکستان نے جس طرح تحمل کا مظاہرہ کیا، وہ عالمی برادری میں اسے ایک سنجیدہ، امن پسند اور باوقار ملک کے طور پر پیش کرنے کا نادر موقع ہے۔ اب جبکہ دنیا بھر میں پاکستانی سفارتی مشنز دوبارہ متحرک ہو رہے ہیں، تو ان کا پیغام اور مقاصد نہایت جامع، مدلل اور مستقبل سے ہم آہنگ ہونے چاہئیے۔اس موقع پر ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا کے ہر دارالحکومت میں تعینات پاکستانی سفارتخانوں کا پہلا پیغام یہ ہونا چاہیے کہ پاکستان جنگ کا خواہاں نہیں بلکہ امن، استحکام اور ترقی کا داعی ہے۔ پاکستان کو یہ اجاگر کرنا چاہیے کہ اس نے ہر محاذ پر صبر اور تدبر کا مظاہرہ کیا اور خطے میں کشیدگی کم کرنے کے لیے سفارتی دروازے کھلے رکھے۔ یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ پاکستان نے دفاع ضرور کیا مگر کبھی پہل نہیں کی۔پاکستان نے یہ صورتحال ثابت بھی کر کے دکھائی ہے۔
پاکستانی مشنز کو ساتھ ہی عالمی برادری کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں، شہریوں پر تشدد، اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں سے آگاہ رکھنا چاہیے اور یہ سب کچھ ایک مہذب، قانونی اور ثبوتوں پر مبنی انداز میں ہونا چاہیے تاکہ عالمی ضمیر پر اثر ہو۔ بھارت کی جانب سے دریائی پانی کے بہاؤ کو محدود کرنے یا اس میں رکاوٹ ڈالنے کے اعلانات نے ایک نئے بحران کو جنم دیا ہے حالانکہ سندھ طاس معاہدہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ معاہدہ ہے، جس کے تحت بھارت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ پاکستان کے حصے کے پانی کو روکے یا کسی بھی طرح دباؤ کے طور پر استعمال کرے۔ انڈیا کا یہ عمل نہ صرف سندھ تاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے، بلکہ جنوبی ایشیا میں ایک “واٹر وار” (آبی جنگ) کی بنیاد بھی بن سکتا ہے۔پاکستانی سفارتی مشنز کو عالمی فورمز پر یہ معاملہ پوری شدت سے اٹھانا ہوگا۔ بھارت کے ان اقدامات کو بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کے اصولوں کے تناظر میں چیلنج کرنا ازحد ضروری ہے کیونکہ پانی ہماری زراعت، معیشت اور بقا سے جڑا ہوا مسئلہ ہے۔پاکستان کے سفارتی مشنز کو تین بنیادی مقاصد کو مرکزِ نگاہ رکھنا ہوگا جو کہ اقوام متحدہ، او آئی سی، یورپی یونین اور دیگر عالمی پلیٹ فارمز پر مسئلہ کشمیر کے ساتھ ساتھ آبی جارحیت پر بھی عالمی رائے عامہ کو متحرک کرے۔ بھارت کی طرف سے پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش کو ایک بین الاقوامی مسئلہ بنایا جائے۔دوسرے نمبر پر یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ بھارت عالمی میڈیا اور سفارت کاری کے ذریعے ایک مخصوص بیانیہ پیش کرتا ہے لہذا پاکستان کے لیے لازم ہے کہ وہ اس بیانیے کو سختی سے چیلنج کرے اور اس جھوٹے بھارتی بیانیہ کی rejection کے لئے فیکٹ شیٹس، رپورٹس، ڈاکیومنٹریز اور متاثرہ علاقوں کی تصویری شہادتوں کو عالمی سطح پر اجاگر کرے۔تیسرے نمبر پر پاکستان کو چاہیے کہ وہ پانی کی اہمیت کو صرف زراعت تک محدود نہ رکھے بلکہ اسے ایک ماحولیاتی، انسانی اور سلامتی کا مسئلہ بنا کر پیش کرے۔ ساتھ ہی عالمی سرمایہ کاروں کو یہ اعتماد بھی دلایا جائے کہ پاکستان ایک پُرامن، پائیدار اور ترقی پذیر ملک ہے۔
پاکستان کے لیے یہ وقت ایک نئے سفارتی باب کا آغاز بن سکتا ہے — ایک ایسا باب جو امن، وقار اور حقیقت پر مبنی ہو۔ پاکستانی سفارتکاروں کو نہ صرف پاکستان کا مؤقف دنیا کے سامنے واضح انداز میں رکھنا ہے، بلکہ عالمی ضمیر کو بیدار کرنا ہے کہ جنوبی ایشیا کا مستقبل پانی، انصاف اور قانون کی بالادستی سے جُڑا ہوا ہے۔ خاموش جارحیت، جیسے آبی رکاوٹیں، جنگی توپوں سے کم خطرناک نہیں اور اس وقت پاکستان کے لئے ان کا توڑ صرف مؤثر اور مضبوط سفارت کاری سے ہی ممکن ہے۔پاکستان کی بقا کے یہ تمام حقیقی تقاضے ہیں ،دنیا کو واضح پیغام دینا ہو گا۔
حالیہ جنگی کشیدگی کے بعد پاکستان کے لیے یہ وقت سفارتی حکمت عملی کو ازسرنو ترتیب دینے کا ہے اور ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر پاکستان نے جس طرح تحمل کا مظاہرہ کیا، وہ عالمی برادری میں اسے ایک سنجیدہ، امن پسند اور باوقار ملک کے طور پر پیش کرنے کا نادر موقع ہے۔ اب جبکہ دنیا بھر میں پاکستانی سفارتی مشنز دوبارہ متحرک ہو رہے ہیں، تو ان کا پیغام اور مقاصد نہایت جامع، مدلل اور مستقبل سے ہم آہنگ ہونے چاہئیے۔اس موقع پر ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا کے ہر دارالحکومت میں تعینات پاکستانی سفارتخانوں کا پہلا پیغام یہ ہونا چاہیے کہ پاکستان جنگ کا خواہاں نہیں بلکہ امن، استحکام اور ترقی کا داعی ہے۔ پاکستان کو یہ اجاگر کرنا چاہیے کہ اس نے ہر محاذ پر صبر اور تدبر کا مظاہرہ کیا اور خطے میں کشیدگی کم کرنے کے لیے سفارتی دروازے کھلے رکھے۔ یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ پاکستان نے دفاع ضرور کیا مگر کبھی پہل نہیں کی۔پاکستان نے یہ صورتحال ثابت بھی کر کے دکھائی ہے۔
پاکستانی مشنز کو ساتھ ہی عالمی برادری کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں، شہریوں پر تشدد، اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں سے آگاہ رکھنا چاہیے اور یہ سب کچھ ایک مہذب، قانونی اور ثبوتوں پر مبنی انداز میں ہونا چاہیے تاکہ عالمی ضمیر پر اثر ہو۔ بھارت کی جانب سے دریائی پانی کے بہاؤ کو محدود کرنے یا اس میں رکاوٹ ڈالنے کے اعلانات نے ایک نئے بحران کو جنم دیا ہے حالانکہ سندھ طاس معاہدہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ معاہدہ ہے، جس کے تحت بھارت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ پاکستان کے حصے کے پانی کو روکے یا کسی بھی طرح دباؤ کے طور پر استعمال کرے۔ انڈیا کا یہ عمل نہ صرف سندھ تاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے، بلکہ جنوبی ایشیا میں ایک “واٹر وار” (آبی جنگ) کی بنیاد بھی بن سکتا ہے۔پاکستانی سفارتی مشنز کو عالمی فورمز پر یہ معاملہ پوری شدت سے اٹھانا ہوگا۔ بھارت کے ان اقدامات کو بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کے اصولوں کے تناظر میں چیلنج کرنا ازحد ضروری ہے کیونکہ پانی ہماری زراعت، معیشت اور بقا سے جڑا ہوا مسئلہ ہے۔پاکستان کے سفارتی مشنز کو تین بنیادی مقاصد کو مرکزِ نگاہ رکھنا ہوگا جو کہ اقوام متحدہ، او آئی سی، یورپی یونین اور دیگر عالمی پلیٹ فارمز پر مسئلہ کشمیر کے ساتھ ساتھ آبی جارحیت پر بھی عالمی رائے عامہ کو متحرک کرے۔ بھارت کی طرف سے پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش کو ایک بین الاقوامی مسئلہ بنایا جائے۔دوسرے نمبر پر یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ بھارت عالمی میڈیا اور سفارت کاری کے ذریعے ایک مخصوص بیانیہ پیش کرتا ہے لہذا پاکستان کے لیے لازم ہے کہ وہ اس بیانیے کو سختی سے چیلنج کرے اور اس جھوٹے بھارتی بیانیہ کی rejection کے لئے فیکٹ شیٹس، رپورٹس، ڈاکیومنٹریز اور متاثرہ علاقوں کی تصویری شہادتوں کو عالمی سطح پر اجاگر کرے۔تیسرے نمبر پر پاکستان کو چاہیے کہ وہ پانی کی اہمیت کو صرف زراعت تک محدود نہ رکھے بلکہ اسے ایک ماحولیاتی، انسانی اور سلامتی کا مسئلہ بنا کر پیش کرے۔ ساتھ ہی عالمی سرمایہ کاروں کو یہ اعتماد بھی دلایا جائے کہ پاکستان ایک پُرامن، پائیدار اور ترقی پذیر ملک ہے۔
پاکستان کے لیے یہ وقت ایک نئے سفارتی باب کا آغاز بن سکتا ہے — ایک ایسا باب جو امن، وقار اور حقیقت پر مبنی ہو۔ پاکستانی سفارتکاروں کو نہ صرف پاکستان کا مؤقف دنیا کے سامنے واضح انداز میں رکھنا ہے، بلکہ عالمی ضمیر کو بیدار کرنا ہے کہ جنوبی ایشیا کا مستقبل پانی، انصاف اور قانون کی بالادستی سے جُڑا ہوا ہے۔ خاموش جارحیت، جیسے آبی رکاوٹیں، جنگی توپوں سے کم خطرناک نہیں اور اس وقت پاکستان کے لئے ان کا توڑ صرف مؤثر اور مضبوط سفارت کاری سے ہی ممکن ہے۔پاکستان کی بقا کے یہ تمام حقیقی تقاضے ہیں ،دنیا کو واضح پیغام دینا ہو گا۔