میرا کالم “آزمائش ” روزنامہ سرزمین لاہور میں شائع ہوا تو قارئین کی جانب سے کئی سوالات سامنے آۓ ۔میری ایک پیاری بھتیجی نے لکھا کہ کیا آزمائش سزا ہوتی ہے ؟ اگر نہیں تو پھر آزمائش اورسزا میں کیا فرق ہے ؟ کیا آزمائش سزا بن جاتی ہے ؟مجھے بھی احساس ہوا کہ واقعی اپنے کالم میں مجھے اس فرق کو نمائیاں کرنا چاہیے تھا ۔لیکن کالم ایک ایسی مختصر سی تحریر ہوتی ہے اس میں کئی موضوع کی وضاحت کرناممکن نہیں ہو سکتا۔اس لیے کچھ چیزوں کی وضاحت میں کمی رہ جاتی ہے ۔اس لیے اس لطیف سے موضوع پر لکھنا ضروری ہو گیا ہے ۔کہتے ہیں کہ انسانی زندگی کا ہر موڑ ایک سوال چھوڑ جاتا ہے اور ہر سوال ایک راستہ لیکن کچھ سوال ایسے ہوتے ہیں جو ہمیں سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں جیسے کہ یہ سوال “میرے ساتھ ہی یہ سب کیوں ؟”کیا یہ اللہ کی طرف سے ازمائش ہے یا میرے اعمال کی سزا ہے ؟ یہ سوال محض ایک فکری کشمکش نہیں بلکہ یہ انسان کے دل و دماغ پر چھا جانے والا وہ گرد باد ہے جو زندگی کو یا تو صبر کے ساحل پر لا پھینکتا ہےت یا پھر ندامت کی پاتال میں دھکیل دیتا ہے ۔
“آزمائش “اور “سزا ” دو مختلف مفہوم اور مقاصد رکھنے والے تصورات ہیں ۔جنہیں اکثر لوگ ایک دوسرے مین گڈ مڈ کر دیتے ہیں ۔جبکہ ان کے درمیان ایک لطیف سا فرق ہے ۔“آزمائش ” جسے ٹسٹ یا ٹرائل بھی کہتے ہیں ۔ جیسےبچے امتحان سے قبل بچوں سے بار بار ٹسٹ لے کر امتحان کی تیاری کرائی جاتی ہے تاکہ وہ امتحان پاس کر سکے اور اس کی تعلیمی صلاحیتوں کو جانچا جاسکے ۔ ایسے ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندے کے ایمان ،صبر ،استقامت یا شکر کو جانچنے کے لیے آزمائش آتی ہے ۔قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے کہ ” اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف ،بھوک ،مالوں ،جانوں اور پھلوں کے نقصان سے ۔اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو ” ( سورۃ البقرا) حضرت ایوب ؑ کی بیماری ،حضرت ابراہیم ؑ کی بیٹے کی قربانی،غربت ،بیماری ،بے اولادی ،مشکلات وغیرہ ۔آزمائش اللہ تعالیٰ کا وہ نازک لمس ہے جو بندے کے دل کو چمکانے کے لیے آتا ہے ۔یہ امتحان ہے جس میں کامیابی کے بعد وہ قربت اور خوشی نصیب ہوتی ہے جو دنیا کے کسی مال ،رتبے یا شہرت سے حاصل نہیں ہو سکتی ۔مختصریہ کہ آزمائش کے پس پردہ محبت اور ہمدردی اور سزا کے پیچھے غصہ کار فرما ہوتا ہے ۔
“سزا” کسی گناہ ،نافرمانی یا سرکشی کے بدلے میں ہونے والے عذاب یا غصے کے اظہار کو کہا جاتا ہے ۔دنیا میں آزمائش اور ٹسٹ کے بعد فائنل امتحان میں کسی کا فیل ہو جانا ایک دنیاوی چھوٹی سی سزا کا نمونہ کہا جاتا ہے لیکن اس سزا کامطلب عارضی ہوتا ہے جس کی ریکوری ممکن ہوتی ہے ۔جبکہ اللہ کا عذاب اس سے مختلف اور دائمی ہوتا ہے جس میں واپسی ممکن نہیں ہے جیسے قوم نوح پر طوفان ، قوم لوط پر آسمانی بجلی ،فرعون کی غرقابی اور ایسے ہی افراد کی ذاتی زندگی میں گناہوں کے بعد مصیبتیں ہوتی ہیں ۔آزمائش میں صبر کرنے والے کے درجات بلند ہوتے ہین ،اللہ کی قربت نصیب ہوتی ہے اور گناہوں کی معافی اور آخرت میں اجر عطا ہوتا ہے۔سزا اللہ کی گرفت ہے جو انسان کی غفلت کو جھنجھوڑتی ہے ۔یہ آنکھوں کی بینائی نہیں ،دل کی بینائی کا نتیجہ ہوتی ہے جیسے قوم عاد و ثمود جو اللہ کے نبیوں کو جھٹلاتے رہے یہاں تک کہ زمیں ان کے غرور کو نگل گئی ۔
تنبیہ ،ندامت ،توبہ کی دعوت ہوتی ہے لیکن اگر باز نہ آئیں تو اس آزمائش میں مزید سختی اور دنیا وآخرت میں خسارہ ہوتا ہے ۔قرآن میں ارشاد ہے کہ “اور جو مصیبت تمہیں پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے سبب سے ہے اور وہ بہت سی باتوں سے درگزر بھی کرتا ہے “(سورۃ الشور ی ) آج اگر ہماری زمیں خشک ہو جاۓ ،بارش سیلاب میں بدل جاۓ ،گھربے سکونی کا گڑھ بن جاۓ اور دل میں بےچینی گھر کر لے تو شاید ہمیں رک کر سوچنا چاہیے کہ “یہ آزمائش ہے یا سزا ؟ ” فرق سمجھنے کا رازش دل کی کیفیت میں پوشیدہ ہے ۔اگر دکھ کے لمحےمیں بھی دل میں سکون ،صبر اور اللہ پر اعتماد ہو تو سمجھ لو یہ آزمائش ہے ۔اور اگر بےچینی ،ندامت اور پچھتاوے کی گونج ہو تو غالبا” یہ سزا ہو سکتی ہے ۔
گویا آزمائش ایمان کی جانچ کی وجہ ہوتی ہے تربیت و بلندی درجات مقصد ہوتا ہے صبر اور اجر نتیجہ ہوتا ہے دل میں سکون و صبر علامت ہوتی ہے ۔ایسے ہی ” سزا ” گناہوں کا نتیجہ ،تنبیہ یا عذاب ،ندامت یا ہلاکت ہے جو دل میں بےچینی اور بوجھ ہوتا ہے ۔قرآن باربار ہمیں یا دلاتا ہے “جو مصیبت تمہیں پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے سبب ہے ‘( الشوری) اور پھر رب کریم تسلی بھی دیتا ہے کہ “اللہ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ آزمائش میں نہیں ڈالتا ” ( البقرہ) حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کسی نے آزمائش اور سزا کا فرق پوچھا تو آپ نے فرمایا ” تم پر جب کوئی مصیبت آۓ اور وہ مصیبت تمہیں اللہ کے قریب کردے ٔ تو سمجھو آزمائش ہے اگر وہ مصیبت تمہیں اللہ سے دورکر دے تو سمجھو سزا ہے ۔”
کبھی کبھی آزمائش اور سزا بظاہر ایک جیسی دکھائی دیتی ہیں جیسے بیماری یا مالی نقصان مگر ان کی حقیقت کا علم نیت ،اعمال اوردل کی حالت سے ہوتا ہے اگر انسان صبر شکر اور توبہ کے راستے پر ہو تو آزمائش ہے ورنہ سزا ہے ۔یہی خود کو آئینے میں دیکھنے کا وقت ہے جب زندگی میں کبھی سجدہ طویل ہوجاۓ تو پریشان نہ ہوں وہ آزمائش کا در کھٹکھٹا رہا ہے ۔اور اگر آنکھ سے خوشی روٹھ جاۓ اور دل ویران ہونے لگے تو رک جاو اور اپنے اعمال کی طرف دیکھو ۔کیونکہ کبھی آزمائش ہمیں ر ب کے قریب لانے کے لیے آرہی ہے اور کبھی سزا ہمیں اپنے رب کو یاد دلانے کے لیے آتی ہے ۔فیصلہ بےشک رب کرتا ہے مگر سوال ہمارے لیے ہے کہ کیا ہم نے اپنے حال کا چہرہ پہچان لیا ہے ؟ سکھ دکھ ،غم پریشانیاں زندگی حصہ ضرور ہیں مگر پوری زندگی تو نہیں ۔۔زندگی کا سفر ہموار نہیں ہوتا کہیں سکھ کی خوبصورت سڑک تو کہیں غم و تکلیف اور آزمائش کے اونچے نیچے گڑھے ۔۔لیکن یہ سب اس زندگی کے سفر کا تھوڑا سا حصہ ہیں ۔۔پوری زندگی نہیں ہیں ۔خوشیاں شکر مانگتی ہیں اور غم صبر طلب کرتا ہے اور پریشانیاں قرب الہی کا ذریعہ بنتی ہیں ۔خود کو حالات کے مطابق بسر نہ کریں بلکہ زندگی کو زندگی کی طرح امید ،دعا اور حوصلے سے جینا سیکھیں ۔امید کے چراغوں بجھنے نہ دیں انہیں کی روشنی تو منزل کا راستہ دکھاتی ہے ۔میرا اپنی سوال کرنے والی بھتیجی کو یہی جواب ہے کہ آزمائش اور سزا کی بحث سے ہٹ کر جب رب سے مانگ رہے ہو تو پورے یقین سے مانگو اور ممکن ناممکن کی الجھن میں مت پڑو جس سے تم مانگ رہے ہو وہ دنیا کے خزانے اور تمام طاقتوں کا بادشاہ ہے ۔اس کے لیے ایک کن کی بات ہے وہ اسباب بھی بنادیتا ہے اور وسیلے بھی پیدا کر دیتا ہے ،معجزے کرکے زندگی کے بند دروازے کھول دیتا ہے بس تم نیت صاف اور اللہ پر توکل رکھو ۔وہ ہے جس نے پیدا کیا اور وہی ہے جس کے پاس آج یا کل ہم سب نے ہر صورت واپس لوٹنا ہے ۔ہم تو صرف اپنے حصے کا کام کرنے آتے ہیں جتنی جلدی یہ فرض ادا کرلیں تو لوٹنا ہی ہوتا ہے ۔سفر سے واپسی دراصل اپنے بنیادی مقام کی جانب جانے کانام ہے جہاں سے آغاز سفر ہوتا ہے ۔زندگی کا اختتام دراصل زندگی کا ٓغاز ہوتا ہے ۔یہاں ہم بےشمار لوگوں کو چھوڑ کر جاتے ہیں لیکن وہاں بےشمار اجداد ہمارے منتظر ہوتے ہیں ۔جنہیں ہم پیچھے چھوڑ جاتے ہیں کچھ ہی دنوں میں وہ بھی ہم سے ایک ایسی زندگی میں آملتے ہیں جو کبھی ختم نہ ہونے والی زندگی ہے ۔ایسی زندگی جہاں موت کے علاوہ سب کچھ ہے ۔