اردو غزل کو روایت سے جدید اور جدید سے جدید ترین بنانے میں ہمارے شاعروں کی ایک طویل ترین فہرست ہے۔پاکستان بننے کے بعد جن شعراء نے روایت کا احترام کرتے ہوئے غزل کو جدید رنگ اور نئی فکر سے ہم آہنگ کیا ان میں فیض احمد فیض ،احمد فراز ،ناصر کاظمی،منیر نیازی،شہزاد احمداور شکیب جلالی سمیت درجنوں شعراء کے نام آتے ہیں۔خواتین شاعرات کی بھی پوری کھیپ ہے۔سال بہ سال اس میں نئے شعراء شامل ہوتے رہے ہیں۔ہر دہائی کے اپنے شاعر ہیں۔80ء کی دہائی میں جن جن شعراء نے مضافات سے شہر کر رخ کیا اور پورے ادبی منظر نامے پر چھا گئے ان میں ایک اہم نام جاوید قاسم کا ہے۔
جاوید قاسم کی شاعری میں عصری شعور،علامات واستعارات اور جدید طرز احساس کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں محبت بھی نئے انداز میں نظر آتی ھے لیکن وہ بنیادی طور پر ایک ایسا شاعر ھے جس کے لفظ لفظ اور مصرعہ مصرعہ میں زندگی دوڑتی نظر آتی ھے۔وہ انقلاب کی بات بھی کرتا ھے اور حالات حاضرہ پر بھی گہری نظر رکھتا ھے۔اس کی شاعری عہد حاضر کا ایک قیمتی اثاثہ ھے جو زندگی سے بھر پور ھے۔
جاوید قاسم کا پہلا شعری مجموعہ ،پوری عمر کا دن اور دوسرا شعری مجموعہ ،کوئی چشمہ نکل آئے شائع ھو کر بھر پور پذیرائی حاصل کر چکے ھیں۔اب ان کا تیسرا شعری مجموعہ شائع ھو رھا ھےبقول خالد علیم،،جاوید قاسم جچا تلا مصرعہ کہنے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔لیکن ایسا نہیں کہ اس کا تخلیقی ہنر صرف مصرعے پر ہی تمام ہو جاتا ہے۔اکثر اس کا ایک مصرعہ بھی ہوں گرفت میں لے لیتا ہے کہ دوسرا مصرعہ پڑھتے ہوئے بظاہر مفہوم کے دروبست پر جانا مشکل ہو جاتا ہے۔یہ اس کی ہنر کاری کی واضح مثال ہے کہ وہ دو مصرعوں کے باہمی توازن سے قطع نظر ایک مصرع میں بھی اپنی بات کہنے کا ہنر جانتا ہے،،
جاوید قاسم کا پہلا شعری مجموعہ ،،پوری عمر دن،،چند برس قبل شائع ہوا تو اسے جدید شاعری کی توانا اور منفرد آواز قرار دیا گیا۔دوسرا شعری مجموعہ ۔۔کوئی چشمہ نکل آئے،،بھی اپنے نام کی طرح منفرد اور مختلف تھا۔جاوید قاسم نئی صبح کی امید تو رکھتا ہے لیکن موجودہ حالات سے مایوس بھی ہے۔بقول ڈاکٹر عالم خان،،جاوید قاسم شہر افسوس کی زبوں حالی کے تذکرے سے لے کر صبح نو کی امید کے تمام مراحل کو اپنے فن کا جزو لاینفک قرار دیتے ہیں اور دارو رسن کی تمام آزمائشوں سے ثابت قدمی کے ساتھ گزر کر ایک نئی صبح کے طلوع ہونے کی نوید دیتا ہے،،
نئی صبح کا متلاشی کہیں کہیں اپنی ناقدری کا گلہ بھی کرتا ہے۔ایک حساس شاعر اور کیا کر سکتا ہے۔چند شعر دیکھیں۔۔۔
لمحہ لمحہ ٹوٹا،جاگا شعر کہے
غم جہاں میں شب بھر رویا شعر کہے
دنیا طرف سے خالی نکلی جس نے قدر نہ کی
کیسے کیسے مضموں باندھے،کیاکیا شعر کہے
دنیا کو اس لئے بھی گوارا نہیں تھے ہم
اس کے کسی بھی کام کا حصہ نہیں تھے ہم
شاید اسی لئے وہ کبھی کبھی تنگ آکر دنیا سے بے زاری کا اظہار بھی کرتا ہے۔۔۔
آج سے توڑ دئیے میں نے بھی رشتے سارے
آج سے میں نے بھی دیوار پہ ماری دنیا
۔جاوید قاسم کا تیسرا شعری پڑاؤ یا عشق مدد ،،کے نام سے منظر عام پر آرہا ہے۔شاید جاوید قاسم عشق حقیقی کی تلاش میں نکل پڑا ھے۔اپنے پہلے مجموعوں کی طرح موجودہ شعری مجموعوں میں بھی وہ اپنے عہد میں ھونے والی ناانصافیوں،عدم مساوات ،ظلم و بربریت اور بہت سی ناھمورایوں اور ملک میں عدم استحکام پر نوحہ کناں ھے۔وہ ظلمت شب میں روشنی کی آواز بن کر ابھرنے کی بھرپور کوشش میں نہ صرف خود ھمہ وقت مصروف عمل ھے بل کہ نئی نسل کو بھی سیاہ راتوں میں دئیے جلانے کی ترغیب دیتا دکھائی دیتا ھے۔نئی سحر کی امید رکھتے ھوئے ملکی حالات کو دیکھ کر کبھی کبھی وہ مایوس بھی ھو جاتا ھے۔ان مختلف حوالوں سے اس کے چند شعر دیکھیں۔۔۔
ھم اس لئے بھی رھےسرخ رو شب غم میں
ھمارے ساتھ رھا حرف کا اجالا بھی
اذان صبح کی دی ھے صدا مؤذن نے
نوید صبح پہ جاگیں صفیں درست کریں
کوئی کرن نہ کرن کا کہیں نشان ھے میاں
یہ روشنی ھے تو پھر تیرگی کہاں ھے میاں
ھمارے عہد کی راتیں ھیں چاندنی سے تہی
ھمارے عہد کا سورج دھواں دھواں ھے میاں
جاوید قاسم کی شاعری میں تصوف،فلسفہ،سماجیات،سیاست اور معاشی حالات کی عکاسی نظر آتی ھے۔اپنی شاعری میں وہ کبھی کمزور پر ھونے والے ظلم پر روتا ھے تو کبھی زندگی کی تلخیوں پر اشک بار نظر آتا ھے۔آئیے چند اور شعر دیکھیں
دیکھ کر ظلم رو پڑی مری آنکھ
لب نہ بولے تو بول اٹھی مری آنکھ
کوئی گردش کبھی کوئی تلخی
آنسوؤں سے نہ بھر سکی مری آنکھ
ھماری گفتگو ھے ٹھیک لیکن
بہت ھی تلخ ھے لہجہ ھمارا
لیکن کہیں کہیں وہ تلخیوں کو بھلا کر جہان خراب سے سلام دعا بھی رکھتا ہے ،جب وہ کہتا ہے
رکھیں دعا سلام جہان خراب سے
ایسا اگر نہ ھو تو گذارا کہاں کریں
آخر میں یہی کہوں گا کہ جاوید قاسم نے مشکل حالات میں بھی ایک سچے اور کھرے پاکستانی کی طرح وطن سے محبت کی ھے۔تاھم معاشی حالات اور بھوک کے ھاتھوں مجبور ھو کر بعض اوقات ضرورتیں ھمیں ضمیر کے خلاف فیصلے کرنے پر مجبور کر دیتی ھیں۔لکھنے والوں کی انہی مجبوریوں کو جاوید قاسم نے اپنے اس نئے شعری مجموعے،یا عشق مدد میں کئی زاویوں سے پیش کیا ھے۔۔۔۔چند شعر دیکھیں
بیچ ڈالے گی کبھی کوئی ضرورت مجھ کو
خرچ ھو جاؤں گا اک روز کمایا ھوا میں
عشق پر بھوک آگئی غالب
ایک شاعر نے بیچ دی غزلیں
روز بڑھتے ھوئے مسائل پر
ھنس پڑا میں تو رو پڑی غزلیں
عمر بھربار مشقت ھی کیا ھے لیکن
کام آئی نہ کبھی میرے کمائی میری
جاوید قاسم کا شعری سفر جاری ھے ،میں اسے نئے شعری مجموعے ،یا عشق مدد کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتے ھوئے اس کے تادیر ادبی سفر کے لئے دعا گو ھوں۔اللہ پاک اسے اپنی امان میں رکھیں۔آمین