کہتے ہیں کہ اس چکا چوند دنیا میں اکثر وہ چراغ اور ان چراغوں کی روشنی نظروں سے اوجھل رہ جاتی ہے جو خاموشی سے جلتے ہیں اور دوسروں کے لیے روشنی اور اجالے بانٹتے ہیں ۔ایسے ہی درویش منش انسان اپنے
نفس کی نفی کرکے فرض شناسی ،اخلاص اور مسلسل جدوجہد کے ذریعے وہ مقام حاصل کر لیتے ہیں جو صرف الفاظ سے نہیں بلکہ عمل سے منور ہوتا ہے ۔ ان کی کارکردگی بظاہر شور نہیں مچاتی مگر اسقدر پرُ اثر ہو
تی ہے کہ مدتوں دلوں کو گرماۓ رکھتی ہے اور ان کے منصفانہ فیصلوں کی گونج ہر جانب سنائی دیتی ہے۔ آج ہم ایک ایسے ہی مرد قلندر اور خ
لوص کے پیکر انسان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جس کی زندگی سراپہ خدمت ،سادگی اور بلندی کردار کی آئینہ دار ہے ۔بعض شخصیات اپنی آواز سے نہیں بلکہ اپنے خاموش کردار اور عاجزانہ رویے سے جانے جاتے ہیں ۔جو بولتے ک
م ہیں مگر عمل کی زبان میں ایسا کلام کرتے ہیں کہ وقت بھی انہیں فراموش نہیں کر پاتا ۔ان کی سادہ پوشی میں وقار ،انکساری میں عظمت اور خدمت میں بے نیازی صاف جھلکتی دکھائی دیتی ہے ۔ان کی کامیابیوں کی داستانیں کسی بینر یا بورڈ پر نہیں لکھی جاتیں ، لوگوں کے دلوں پر نقش ہو کر رہ جاتی ہیں ۔بزرگ کہتے ہیں کہ عہدہ ،اختیار اور طاقت رکھنے کے
باوجود عاجزی کا پیکر ہونا کسی ولی سے کم نہیں ہوتا ۔
شفقت اللہ مشتاق ہمارے ایسے ہی درویش مزاج مگر بلند کردار دوست ہی نہیں، ایک صاحب علم،صاحب قلم اور درد دل رکھنے والے انسان ہیں ۔ریونیو بورڈ لاہور میں تھے تو کتنے ہی لوگ ان کے منصفانہ مزاج سے فیض یاب ہوئے اور آج کل راجن پور کے ڈپٹی کمشنر ہیں تو خلق خدا وہاں ان کی عوام دوستی سے مستفید ہو رہی ہے ۔ جو فانی دنیا میں غیر فانی نقوش ثبت کر رہے ہیں ، نہ ستائش کی تمنا ،نہ صلے کی پرواہ ۔۔بس خدمت اخلاص اور استقامت کی روشن مثال ہیں ۔لاہور میں بیٹھ کر ہم صرف راجن پور کے حوالے سے خبریں پڑھ رہے تھے کہ
خوش قسمتی سے آپ چند روز قبل لاہور تشریف لائے اور ملاقات کے دوران راجن پور ساتھ چلنے کی دعوت ملی تو ہمارے دل سے بے اختیار نکلا ۔۔۔
”آپ کہیں اور ہم نہ آئیں ایسے تو حالات نہیں“
ہم نے رخت سفر باندھا اور مرزا اسد اللہ خاں غالب کی تقلید میں کلکتہ کی بجائے راجن پور کو عازم سفر ہوئے۔ غالب ڈاک سے کلکتہ پہنچے تھے، ہم
کار سے راجن پور کی فضا میں داخل ہوئے تو ایک عجب راحت اور طمانیت کا احساس ہوا اس طمانیت اور سرخوشی کا ایک سبب تو راجن پور میں شفقت اللہ مشتاق تھے ہی مگر دوسرا سبب جو شاید اس سے بڑا ہے وہ تھا سرائیکی وسیب کی بزرگ ہستی اور روہی چولستان کے بے تاج بادشاہ حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے مزار پر حاضری کی تمنا، جو اس سفر میں تکمیل پذیر ہوتی دکھائی دے رہی تھی اور پھر ہوئی بھی۔۔۔۔
بہرحال بات ہو رہی تھی راجن پور کی،جہاں تین روز تک جناب شفقت اللہ مشتاق کی میزبانی کے مزے لوٹے،لیکن اس میزبانی میں وہ اپنے فرائض سے پل بھر بھی غافل نہیں ہوئے۔ ہر دم مستعد،باخبر اور ہمدرد۔۔۔راجن پور کے لوگوں کا کہنا تھا کہ نئے ڈی سی (شفقت اللہ مشتاق )کے آنے کے بعد ان کے ضلع کا نقشہ ہی بدل گیا ہے۔ وہ ہر روز کھلی کچہری لگاتے ہیں، لوگوں کے مسائل سن کر اسی لمحے حل کرنے کیلئے ہدایات دیتے ہیں بے بس اور لاچاروں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھتے ہیں، بیواﺅں کے ساتھ ہونیوالی ناانصافیوں پر فوری ایکشن لیتے ہیں اور جس کی کوئی فریاد نہیں سنتا تھا اب شفقت اللہ مشتاق سنتے ہیں۔۔
یہ تو وہاں کے رہنے والوں کے خیالات تھے ہمارا اپنا مشاہدہ بھی یہی رہا کہ کھلی کچہری میں ہر کسی کو بات کرنے کا حق تھا کسی سائل کی طرف کسی سرکاری ملازم کو گھور کر دیکھنے کی اجازت نہیں تھی ۔
ہم پر پہلی بار یہ انکشاف ہوا کہ شفقت اللہ مشتاق کی دو نہیں چار آنکھیں ہیں۔۔وہ ہر بات کا نوٹس لیتے، ہر حرکت پر نظررکھتے ، کسی کی دل جوئی کرتے کسی کو ڈانٹتے اور کسی کی حق رسی یقینی بناتے۔ کھلی کچہری کے بعد ایک اور کھلی کچہری انکے دفتر میں یہ صورت اختیار کرتی کہ ان تک رسائی میں کوئی روک ٹوک نہیں تھی، جو جب چاہتا اپنا مسئلہ لیکر ان کے سامنے پیش ہو جاتا۔ وہ موقع پر احکامات جاری کرتے اور پھر بعد میں اپنے احکامات کی رپورٹ بھی اپنے عملے سے طلب کرتے کسی نے سچ ہی لکھا تھا۔۔۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
ہم نے دیکھا کہ شفقت اللہ مشتاق کی نظر محض اپنے دفتر میں آنے والوں یا کھلی کچہری میں پیش ہونے والوں تک محدود نہیں ،ان کی نظر تو پورے ضلع پر تھی، وہ اچانک کسی سکول، کسی ہسپتال پہنچ جاتے ، ہم بھی ساتھ ہوتے تو دیکھتے کہ بچوں سے باتیں کررہے ہیں۔ان کے مسائل پوچھ رہے ہیں، سکول کے مسائل میں یوں دلچسپی لے رہے ہیں جیسے یہ ان کا اپنا سکول ہو یا ان کے بچے اس سکول میں پڑھتے ہوں، میں نے اس بارے استفسار کیا تو بولے یہ سب میرے بچے ہی ہیں ،اپنے مستبقل سے کون پیار نہیں کرتا۔سکول سے نکلے تو ہسپتال جا پہنچے، مریضوں سے ان کی مشکلات پوچھیں،ہسپتال میں دستیاب ادویاب کا جائزہ لیا، جب تک مطمئن نہ ہوئے ہسپتال سے نہیں نکلے یہ ہے انسانیت سے ان کا محبت کا انداز۔۔۔
ایک روز ہمیں لےکر کچھ تعمیرات کے دورے پر پہنچ گئے یہ کچھ سرکاری منصوبے تھے جن پر عمل ہو رہا تھا ۔انجینئر، مستری ،مزدور کام میں جتے ہوئے تھے تعمیر کام کے حوالے سے ایک ایک بات پوچھی رپورٹس کا جائزہ لیا۔ جہاں کمی محسوس ہوئی سخت ہدایات دیں اور جہاں کچھ اچھا دیکھا، شاباش دی۔۔ہم حیران تھے ۔ہمارا مہربان جو کہ ایک ڈپٹی کمشنر تھا ہمارے ملک میں عموماً ڈپٹی کمشنروں کی گردنیں ہی تنی ہوتی ہیں