قوم نے 86 واں یوم قراراد پاکستان گزشتہ روز تجدید عہد کے طور پر اس عزم کے ساتھ منایا کہ آزاد قوموں کا ہر دن اپنی نئی آب وتاب کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے لیکن قوموں کی زندگی میں بعض ایسے دن ظہور پذیر ہوتے ہیں جو دامن میں خوش بختی اور سرفرازی کے ایسے گراں مایہ جواہرات سمیٹے ہوتے ہیں جو تاریخ عالم میں سنہری حروف سے رقم کیے جاتے ہیں۔مارچ 1940ء میں کسی کو نہیں معلوم تھا کہ یہ مہینہ برصغیر میں ایسی تاریخ رقم کرے گا جسے مسلمان کبھی نہیں بھلا سکتے۔ رہتی دنیا تک پاکستانی عوام اس دن کو بڑے شایان شان طریقے سے منائے گی۔23 مارچ وہ دن ہے جب پاکستان کی پہلی خشت رکھی گئی ایک پراعتماد تحریک شروع ہوئی اور جو بعد میں انگریز اور ہندو دونوں کیلئے گلے کی ہڈی بن کر رہ گئی۔
برصغیر کے مسلمان قوم جو انگریزوں کے شکنجے میں پھنسی ہوئی تھی ان کو نہیں معلوم تھا کہ ایک دبلا پتلا انسان شطرنج کی ایسی بازی کھیلے گا کہ مسلمان آزادی کی زندگی بھی گزار سکیں گے باوجود اس کے کہ انگریز اور ہندو دونوں ملکر مسلمانوں کے خلاف بڑی شاطر چالیں چل رہے تھے مگر ان کفار کو کیا معلوم تھا کہ مسلمان ایسی چال چلیں گے کہ ان کے مہرے مات کھا جائیں گے۔23 مارچ کا سورج برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایسی نوید لے کر طلوع ہوا کہ جس کی روشنی میں کفار مات کھا گئے۔
23 مارچ 1940 کے روز پاکستان کے تصور نے ایک ایسی حقیقت کا روپ دھارا کہ ایک عالم حیران رہ گیا۔اس سنہرے دن اپنے ہی گھر میں غلام، پاک و ہند قوم کو آزادی کے حصول کی حوصلہ افزائی ملی۔آل انڈیا مسلم لیگ کا ستائیسواں اجلاس منٹو پارک لاہور منعقد ہوا جو 22 مارچ سے 24 مارچ 1940 تک جاری رہا۔ اس جگہ پر آج یادگار پاکستان (مینار پاکستان) قائم ہے۔
اس تاریخی اجلاس کی صدارت قائداعظم محمد علی جناح نے کی۔ قائداعظم نے اس دن 22 مارچ 1940 کو ڈھائی گھنٹے فی البدیہہ خطاب کیا۔اس تقریر میں آپ نے فرمایا کہ… ’’مسلمان کسی بھی تعریف کی رو سے ایک قوم ہیں۔ہندو اور مسلمان دو مختلف مذہبی فلسفوں ،سماجی عادات اور علوم سے تعلق رکھتے ہیں۔یہ لوگ نہ تو آپس میں شادی کر سکتے ہیں نہ اکٹھے کھانا کھا سکتے ہیں اور یقیناً ہندو اور مسلمان دومختلف تہذیبوں جو بنیادی طور پر اختلافی خیالات اور تصورات پر محیط ہیں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ بالکل واضح ہے کہ ہندو اور مسلمان تاریخ کے مختلف ذرائع سے ہدایت حاصل کرتے ہیں ان کے ہیروز اور قصے کہانیاں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اکثر ایک کا ہیرو دوسرے کا ولن ہے۔
23 مارچ 1940 وہ تاریخی لمحہ ہے جب آل انڈیا مسلم لیگ نے لاہور کے تاریخی اجتماع میں ہندوستان کے کونے کونے سے آئے ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں نے ایک علیحدہ اور آزاد ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا۔ یہ قرار داد لاہور جو بعد میں قرار داد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی۔ قائداعظم نے اجلاس کی صدارت کی اور اے کے فضل الحق نے تاریخ ساز قرار داد پیش کی۔ جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کی،اسی قرار داد میں پاکستان کا مطالبہ کیاگیا ہے۔
قائداعظم نے قرار داد کی منظوری کے بعد اپنے سیکرٹری سے فرمایا!’’اے کاش آج اقبال زندہ ہوتے تو وہ یہ دیکھ کر بے حد خوش ہوتے کہ بالآخر ہم نے آج وہی کچھ کیا جو وہ چاہتے تھے‘‘ اگر سوچا جائے تو کیا پاکستان اسلیئے حاصل کیا تھا کہ آج اس پاکستان کے لوگ نیا پاکستان اور لبرل پاکستان کا نعرہ لگائیں؟کیا پاکستان دو ٹکڑے کرنے کے لیے بنایا گیا تھا؟پاکستان کو تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کا گہوارہ بنانے، دوسرے ممالک سے برابری کی بنیاد پر رشتوں کو استوار کرنے اور قوموں کی برادری میں اسے ممتاز اور سرفراز رکھنے، اسے بنی نوع انسان کی خدمت اور دستگیری کے قابل بنانے کے لیے لازم ہے کہ پاکستان کے عوام کو یکسوئی اور یکجہتی کے تمام لوازم فراہم کیے جائیں اور انھیں احساس دلایا جائے کہ اگر وہ اپنے اندر وہی جذبہ پھر سے زندہ کر لیں جس کا اظہار انھوں نے تحریک پاکستان کی صورت میں کیا تھا وہ پاکستان کو ایک عظیم الشان فلاحی مملکت بنانے کا مقصد حاصل کر سکتے ہیں اور بیرونی سازشوں کو بھی ناکام بنا سکتے ہیں۔ جب قومیں بیدار، متحد اور منظم ہوں تو اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب اور سرخرو ہوتی ہیں۔
خدارا پاکستان کو ان دیمک سے بچائیں جو اس کی جڑیں چاٹ چاٹ کر کھوکھلا کرنے کے درپے ہیں۔‘ایسے عناصر کو پہچانیں انکی نشاندہی کریں۔ان سے بچیں اور ملک و قوم کو بھی بچائیں