لاھور کا شمار دنیا کے ان شہروں میں ھوتا ھے جہاں تاریخ، تہذیب اور روحانیت نے صدیوں سے اپنے نقوش ثبت کیے ہیں۔ اگر لاھور کے روحانی چہرے کی سب سے روشن اور بلند پہچان کو تلاش کیا جائے تو ایک ھی نام زبان پر آتا ھے، اور وہ ھے حضرت علی بن عثمان ھجویری رحمۃ اللہ علیہ، جنہیں داتا گنج بخشؒ کے نام سے پوری دنیا جانتی ھے۔ آپ کا وجود لاھور کے لیے وہ نعمت ھے جس نے اس شہر کو روحانی مرکز بنایا، اور جس کی نسبت سے یہ شہر ’’داتا کی نگری‘‘ کہلایا ھے۔ آپ نہ صرف برصغیر کے عظیم ترین صوفی بزرگ ہیں، بلکہ تصوف کے علمی، فکری اور عملی میدان میں بھی آپ کی خدمات مثالی ہیں۔
حضرت داتا گنج بخشؒ کا تعلق غزنی (موجودہ افغانستان) سے تھا، جہاں آپ نے علم و عرفان کے سمندر سے سیر ھو کر تصوف کی راہوں پر قدم رکھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی اور پھر مختلف علاقوں کا سفر کر کے جید علما و مشائخ سے علومِ شریعت اور طریقت میں کمال حاصل کیا۔ آپ حضرت ابو الفضل محمد بن حسن ختلیؒ کے مرید تھے، اور انہی کی اجازت سے آپ برصغیر میں تبلیغِ اسلام کے لیے تشریف لائے۔ اس وقت لاھور ہندو راجاؤں کے زیرِ اثر تھا، اور یہاں اسلام کی روشنی ابھی پوری طرح نہیں پہنچی تھی۔ حسنِ اخلاق کا بلند ترین مرتبہ دیکھیئے، آپ نے نہ تلوار سے، نہ بحث سے، بلکہ اخلاق، کردار اور خالص محبت سے لوگوں کے دل جیتے اور ان کے سینے اسلام کے نور سے روشن کیے۔
آپ کی سب سے مشہور کتاب “کشف المحجوب” جو تصوف کی اولین اور جامع ترین تصانیف میں شمار ھوتی ھے۔ اس کتاب میں آپ نے علم، معرفت، حال، مجاہدہ، توکل، محبت، فنا و بقا، اور دیگر صوفیانہ مضامین کو نہایت سادہ مگر عالمانہ انداز میں بیان کیا ھے۔ کشف المحجوب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ھے کہ یہ کتاب صرف اہلِ تصوف ھی نہیں بلکہ عام مسلمانوں کے لیے بھی رہنمائی کا ذریعہ ھے۔ آج بھی دنیا کی کئی جامعات اور دینی مدارس میں اس کتاب کو نصاب کا حصہ بنایا گیا ھے۔
لاھور میں واقع آپ کا مزار، جسے آج داتا دربار کے نام سے جانا جاتا ھے، صدیوں سے روحانی پیاسوں کی سیرابی کا ذریعہ ھے۔ یہاں ہندو، سکھ، عیسائی، اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی عقیدت سے حاضری دیتے ہیں، کیونکہ داتا صاحبؒ کی شخصیت کسی ایک مذہب، فرقے یا قوم کی نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ھے۔ دربار پر ہر وقت زائرین کا ہجوم رہتا ھے، کچھ شفاء کے طلبگار، کچھ سکونِ قلب کے، کچھ دعا کے لیے آتے ہیں اور کچھ صرف ایک لمحہ روحانی سکون کی تلاش میں۔
راقم بھی ہر جمعرات کی رات حضرت صوفی نعیم مستان شاہ ھجویری کی محفلِ سماع بمقام داتا دربار میں، ہمراہ چوہدری طاہر، منی شاہ صاحب اور لیاقت سندھو صاحب کے ساتھ عقیدت کے پھول نچھاور کرنے اور روحانی فیض حاصل کرنے حاضر ھوتا رہتا ھے۔ یہ وہ ساعتیں ھوتی ہیں جن میں نور اور محبت کے رنگ دل و دماغ کو گھیر لیتے ہیں اور کب صبح کا پہلا پہر آ جاتا ھے، پتہ ہی نہیں چلتا۔
سالانہ عرس داتا گنج بخشؒ لاھور کے سب سے بڑے روحانی اجتماعات میں شمار ھوتا ھے۔ لاکھوں زائرین تین دن تک مسلسل عقیدت اور محبت کے رنگ میں ڈوبے رہتے ہیں۔ اس موقع پر نہ صرف پنجاب بلکہ پورے پاکستان اور بیرون ملک سے بھی لوگ شرکت کرتے ہیں۔ ایسے بڑے اجتماع میں امن و امان قائم رکھنا پولیس اور انتظامیہ کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بھی ھوتا ھے۔
اسی تناظر میں اس سال ڈی آئی جی فیصل کامران اور ایس پی سٹی بلال احمد کی قیادت میں پولیس نے مثالی حفاظتی انتظامات کر رھی ھے۔ داخلی راستوں پر تھری لئیرڈ چیکنگ، واک تھرو گیٹس، میٹل ڈیٹیکٹرز اور بیگ اسکیننگ کا انتظام کیا گیاھے۔ خواتین زائرین کی چیکنگ کے لیے لیڈی پولیس اہلکار تعینات کی گئیں ہیں، جبکہ مختلف بلند مقامات پر اسنائپرز کو پوزیشن دی گئی تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے فوری نمٹا جا سکے۔
شہر کی دیواروں سے فرقہ وارانہ وال چاکنگ ہٹائی گئی اور تمام دکانداروں و ھوٹل مالکان سے شورٹی بانڈز اور حلف نامے لیے گئے کہ وہ کسی مشکوک سرگرمی کی فوری اطلاع دیں گے۔ پولیس نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ عرس کے دوران غیر ضروری ہجوم سے بچنے کے لیے دور دراز سے آنے والے غیر متعلقہ افراد کو مکمل محدود کیا جائے۔ اگرچہ اس سے ھوٹل مالکان کا مالی نقصان ھوگا، مگر پولیس قیادت کے مطابق یہ قدم سیکورٹی رسک کو کم کرنے کے لیے ناگزیر ھے۔
زائرین کی سہولت کے لیے ہیلپ ڈیسک، معلوماتی بینرز، فرسٹ ایڈ مراکز، اور ریسکیو 1122 کے اسٹینڈ بائی یونٹس ہر وقت موجود رھے۔ ایس ایچ او عثمان یونس کو خود موقع پر اپنی مکمل فورس کے ساتھ موجود رہنے اور اہلکاروں کو ہدایت سخت ھدایت دی ھے مذید وہ خوش اخلاقی، پیشہ ورانہ مہارت اور خلوص کے ساتھ عوام کی سیکورٹی کی خدمت کریں۔ یہ رویہ زائرین کے دل جیتنے کا باعث بنایا گیا ھے۔
یہ کہنا غلط نہ ھوگا کہ پولیس کی یہ حکمت عملی نہ صرف اجتماع کو پرامن بنانے میں کامیاب رھی بلکہ عوام کے دلوں میں پولیس کے لیے اعتماد کو مزید مضبوط کر گئی۔ اسی موقع پر پولیس نے پہلی بار جدید ڈرون کیمروں سے فضائی نگرانی کا نظام متعارف کرایا، جس سے ہجوم کی حرکات و سکنات پر براہ راست نظر رکھی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ سیف سٹی اتھارٹی کے کیمروں کو بھی مانیٹرنگ کے عمل میں شامل کیا گیا، جو اس بات کا ثبوت ھے کہ پاکستان میں سیکیورٹی انتظامات بھی وقت کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ جیسے عظیم صوفی نے بھی داتا گنج بخشؒ کے دربار پر حاضری دی اور انہیں ’’پیرِ کامل‘‘ قرار دیا۔ آپ کے مشہور اشعار:
گنج بخشِ فیضِ عالم، مظہرِ نورِ خدا
ناقصاں را پیرِ کامل، کاملاں را رہنما
آپ کی شخصیت اور مقام کا