استحکام کی تلاش میں پاکستان
پاکستان کی سیاست ہمیشہ سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے اور ہر حکومت اس کا شکار رہی ہے، موجودہ حکومت جب اقتدار میں آئی تو اس وقت بھی ہر طرف بے یقینی کا راج تھا لیکن بصد شکر کہ ملک نے ایک بار پھر استحکام کی طرف پیش قدمی شروع کی ہے۔ یہ استحکام نہ صرف سیاسی میدان میں درکار ہے بلکہ معیشت، ادارہ جاتی توازن، خارجہ پالیسی اور عوامی ریلیف کے تمام پہلوؤں کے لئے بھی ازحد ضروری ہے۔
موجودہ حکومت کو جب اقتدار ملا تو ملک شدید معاشی بحران کا شکار تھا۔ زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گر رہے تھے، روپے کی قدر غیر یقینی تھی اور مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن بنا رکھی تھی۔ ایسے میں حکومت نے پہلا قدم معیشت کی بحالی کے لیے اٹھایا۔ آئی ایم ایف سے نیا معاہدہ ، سخت مالیاتی نظم و ضبط اور بجٹ میں ٹیکس اصلاحات جیسے اقدامات نے ملکی معیشت کو وقتی طور پر دیوالیہ پن سے بچایا۔ یقینی طور پر یہ کسی بھی حکومت کے لیے آسان نہ ہوتا، مگر موجودہ حکمران اتحاد نے یہ سخت فیصلے کیے اور انہیں جس کی سیاسی قیمت بھی چکانا پڑی۔ہم دیکھتے ہیں کہ حالیہ بجٹ میں کئی مثبت اشارات ملے ہیں۔ زراعت کے لیے سبسڈی، نوجوانوں کے لیے اسکلز پروگرامز، خواتین کے لیے کاروباری قرضوں میں آسانی، اور آئی ٹی سیکٹر کو ٹیکس ریلیف دیے جانا اہم اقدامات ہیں۔ حکومت نے نان فائلرز پر بھی سختی کی ہے اور ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کی باتیں بھی سنائی دے رہی ہیں ۔
خارجہ محاذ پر بھی حکومت نے معتدل اور متوازن پالیسی اپنائی ہے۔ چین، سعودی عرب، ترکی اور دیگر دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کی بہتری، سی پیک کے نئے مرحلے کی بحالی اور روس و وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارتی معاہدے مثبت اشارے ہیں۔ ان سب سے پاکستان کے عالمی تشخص کو استحکام ملا ہے۔تاہم تصویر کا دوسرا رخ بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ حکومت نے معیشت کو بچایا، مگر عام آدمی کی زندگی میں بہتری کے آثار تاحال کم ہی نظر آتے ہیں۔ بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں عوامی برداشت سے باہر ہو چکی ہیں۔ سرکاری اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی حالت میں بہتری کا وعدہ کیا گیا تھا، لیکن عملدرآمد کی رفتار سست ہے۔ بیروزگاری خاص طور پر نوجوانوں میں ایک خطرناک سطح تک جا پہنچی ہے۔اسی طرح جمہوری رویوں میں بھی بہتری کی گنجائش باقی ہے۔ میڈیا پر قدغنیں، تنقیدی آوازوں کو دبانے کے الزامات اور بعض مواقع پر اپوزیشن کے ساتھ سخت رویہ….وہ پہلو ہیں جن سے حکومت کو گریز کرنا چاہیے۔ ایک جمہوری حکومت کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ اختلاف کو برداشت کرتی ہے، نہ کہ اسے دبانے کی کوشش کرے۔ کسی حد تک یہ کہنا درست ہوگا کہ موجودہ حکومت نے سمت تو درست پکڑی ہے، مگر رفتار ابھی ناکافی ہے۔ اصلاحات کی ضرورت صرف بیانات میں نہیں بلکہ عملی اقدامات میں ہونی چاہیے۔ پاکستان میں قائم رہنے والی تمام حکومتیں عوام سے ہمیشہ قربانی مانگتی رہتیں ہیں ۔عوام نے تو بارہا قربانیاں دی ہیں، مگر اب وہ حقیقی ریلیف چاہتے ہیں۔ اگر موجودہ حکومت اس سمت میں مسلسل اور سنجیدہ اقدامات کرے تو پاکستان واقعی استحکام، ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے اور نئی تاریخ رقم بھی ہو سکتی ہے۔