پاکستان کی آزادی ، کامیابیاں اور تحفظات

تحریر۔۔۔ صفدر علی خاں

4

14 اگست کا سورج طلوع ہوتا ہے تو پوری قوم کے دلوں میں قربانیوں کی وہ داستانیں تازہ ہو جاتی ہیں جن کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آیا۔ لاکھوں جانوں کی قربانی، ہزاروں خاندانوں کی جدائی اور بے شمار قربانیاں اس وطنِ عزیز کی بنیاد میں شامل ہیں۔ یہی قربانیاں “بنیانِ مرصوص” کی وہ علامات ہیں جو ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ پاکستان محض ایک جغرافیائی خطہ نہیں بلکہ ایک نظریہ، ایک عہد اور ایک ذمہ داری ہے۔بنیانِ مرصوص کا مطلب بہت انوکھا، پیارہ اورمضبوط ارادوں کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اس کا مطلب ایک فولادی دیوار اور یکجا و متحد عمارت ہے۔ یہ وہی تصور ہے جو قرآنِ کریم میں بیان ہوا اور جسے حضور اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہؓ نے عملی طور پر پیش کیا۔پاکستان کی بہادر افواج کے سپہ سالار فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے اسی پاکیزہ اور مضبوط تصور کو لیکر معرکہ حق کو آگے بٹرھایا اور اپنے سے کئی گنا بٹرے دشمن کو ناک رگڑنے پر مجبور کر دیا۔
غزوۂ خندق کے موقع پر جب مدینہ منورہ پر دشمنوں نے چاروں طرف سے گھیرا ڈال دیا، تو حضور اکرم ﷺ نے خندق کھودنے کا حکم دیا۔ اس کٹھن محنت میں آپ ﷺ اور صحابہؓ شانہ بشانہ کام کرتے رہے۔ حضرت سلمان فارسیؓ، حضرت علیؓ، حضرت عمرؓ اور دیگر صحابہؓ مٹی اٹھاتے، پتھر توڑتے، اور ہر تھکن میں ایک دوسرے کو حوصلہ دیتے۔ اس وقت مسلمانوں کی تعداد کم تھی، وسائل محدود تھے، لیکن ان کا اتحاد اس قدر مضبوط تھا کہ دشمن کئی ہفتوں کے محاصرے کے باوجود کچھ نہ بگاڑ سکا۔ یہی وہ “بنیانِ مرصوص” کی عملی شکل تھی۰۰۰۰یعنی ایسی مضبوط عمارت جس کے پتھر ایک دوسرے سے جُڑے ہوں اور جسے کوئی طوفان گرا نہ سکے۔آج پاکستان کو بھی اسی جذبے کی ضرورت ہے۰۰۰کہ ہر فرد، ہر ادارہ اور ہر طبقہ ایک دوسرے کا سہارا بنے۔پاکستان کو کئی عشروں سے دہشت گردی کا سامنا ہے ۔پاکستان کی عوام اور اس کی بہادر افواج نے دہشت گردی کا جس بہادری بلکہ اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر اپنے پاک وطن کو محفوظ بنایا بلکہ اس سے بڑھ کر دنیا کو بھی باور کروایا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اور اس کی عوام شیشہ پلائی دیوار (بنیان المرصوص )بن کر کھٹری ہے۔
پاکستان الحمداللہ معرکہ حق کے بعد ایک نیا تشخص لے کر ابھرا ہے ۔امریکہ سمیت مغربی ممالک کے ساتھ سکیورٹی تعاون میں اضافہ ہوا۔ اس کامیابی نے پاکستان کو بین الاقوامی برادری میں ایک سنجیدہ اور مؤثر شراکت دار کے طور پر پیش کیا۔اسی طرح تجارتی و اقتصادی میدان میں پیش رفت ہوئی ہے-
پاکستان نے کچھ اہم اقتصادی اصلاحات بھی کی ہیں جیسا کہ ٹیکس نیٹ میں اضافہ اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے محصولات کی شفاف وصولی کے ساتھ برآمدات میں تنوع، خاص طور پر آئی ٹی، زرعی مصنوعات اور ٹیکسٹائل میں ترقی نظر آ رہی ہے۔امریکہ کے ساتھ تجارتی تعلقات میں بہتری آئی ہے اور پاکستان اپنے خطے میں سب بہتر معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔آئی ٹی اور معدنیات سے متعلقہ شعباجات میں براہِ راست سرمایہ کاری اور امریکی مارکیٹ میں پاکستانی مصنوعات کے لیے رسائی میں وسعت شامل ہے۔ اس کے علاوہ توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لئے بھی کوشش ہو رہی ہے۔پاکستان کی دفاعی میدان میں خود انحصاری،جدید ہتھیاروں، ڈرون ٹیکنالوجی اور میزائل سسٹمز کی جدیدیت نے ہمارے دشمنوں کے کس بل نکال دیے ہیں اور رہی سہی کسر ہماری سفارتی کامیابیاں نے پوری کر دی ہے،پاکستان کا مسلم دنیا میں فعال کردار، مقبوضہ کشمیر سمیت عالمی امور پر مسلسل آواز بلند کرنے سے پاکستان نے دنیا کی توجہ حاصل کی ہے۔پاکستان نے تکنیکی شعبے میں بھی قابل ذکر ترقی کی ہے اور بلخصوص آئی ٹی ایکسپورٹس میں اضافہ ہوا ہےاور جس سے نوجوانوں کے لیے فری لانسنگ کے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔
کامیابیوں کے ساتھ ساتھ ہم سمجھتے ہیں کہ چند ایسے چیلنجز کا ذکر بھی ہونا چاہیے جن کا سدباب کرنا ازحد ضروری ہے کیونکہ ہمیں ابھی بھی معاشی دباؤ،قرضوں کا بوجھ اور مہنگائی کی بڑھتی لہر کے ساتھ سیاسی عدم استحکام کا مسلسل سامنا ہے۔قوم کو تاحال تعلیم اور صحت کے معیار میں سہولیات کی کمی بھی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔لہذا ہمارے لئے یومِ آزادی صرف جشن منانے کا دن نہیں ہونا چاہیے بلکہ اپنی کامیابیوں کا جائزہ لینے اور خامیوں کو دور کرنے کا عہد کرنے کا دن کے طور پر منانے کی بھی ضرورت ہے۔ “بنیانِ مرصوص” کا اصل تقاضا بھی یہی ہے کہ ہم ذاتی و جماعتی مفادات سے بالاتر ہو کر ایک قوم بنیں ۔ہمیں اپنے وطن کی سلامتی اور خوشحالی کے لیے اسی جذبے کو اپنانا ہو گا جس کے لئے ہمارے اجداد نے قیام پاکستان کی تحریک چلائی اور بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناح اور مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کے نقش پا پر چلنا ہو گا۔
چنانچہ آئیے۰۰۰ اس یومِ آزادی پر ہم یہ عہد کریں کہ ہم اپنے ملک کی ترقی، سلامتی اور خوشحالی کے لیے وہی جذبہ پیدا کریں جو ہمارے آبا و اجداد نے 1947 میں اور صحابہؓ نے جنگ خندق کے موقعہ پر مدینہ منورہ کی حفاظت میں دکھایا تھا۔ یہی ہمارے مستقبل کی ضمانت ہے اور یہی ہماری بقا کا راز۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.