لاشیں اُٹھانے کے بعد جاگتی ریاست

تحریر: صفدر علی خاں

3

پاکستان میں جب بھی کوئی بڑا حادثہ پیش آتا ہے، ایک مخصوص ترتیب نظر آتی ہے۔پہلے غفلت، پھر سانحہ، اس کے بعد میڈیا پر ہنگامہ، حکومتی وزرا کی رسمی مذمت، تحقیقاتی کمیٹی کا اعلان اور پھر خاموشی۔ تازہ ترین سانحہ سوات کے علاقے گبرال میں پیش آیا جہاں 13 قیمتی جانیں دریا کے بے رحم پانیوں کی نذر ہو گئیں۔ وہ بھی صرف اس لیے کہ   Kpk حکومت نے سیاحوں کے رش، موسم کی خرابی اور انفراسٹرکچر کی کمزوری کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
          ہر سال گرمیوں میں ملک کے شمالی علاقہ جات ملک بھر سے آئے سیاحوں سے بھر جاتے ہیں، لیکن وہی پرانا منظرنامہ دُہرا دیا جاتا ہے۔ گنجان سڑکیں، ناکافی سہولیات، پلوں اور ہوٹلوں کی ناقص حالت اور مقامی انتظامیہ کی غفلت۰۰۰۰۰پاکستان کی مرکزی حکومت یا صوبائی حکومت صرف اُس وقت ایکشن لیتی ہے جب لاشیں پانی سے نکالی جا چکی ہوتی ہیں اور کیمرے آن ہو چکے ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایک مردہ پرست قوم بن چکے ہیں؟ کیا پاکستان میں حکومتیں صرف تعزیتی بیانات، فاتحہ خوانی اور امدادی چیک بانٹنے کے لیے منتخب ہوتی ہیں؟ سوات کا سانحہ چشم کشا ہونا چاہیے۔ بتایا جا رہا ہے کہ مظلوم سیاح ہوٹل انتظامیہ کی مرضی سے دریا کی گزر گاہ کے اندر بیٹھ کر ناشتہ کر رہے تھے اور پانی کا ریلہ آیا، سب کچھ بہا کر لے گیا۔ مقامی انتظامیہ نے نہ روکا، نہ ہی کوئی تنبیہ کی۔ نہ پولیس، نہ سیاحتی ڈیپارٹمنٹ، نہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ،نہ ہوٹل والوں کے لئے کوئی قاعدہ نہ قانون ۔ اب جب سانحہ ہو چکا ہے، سب حرکت میں آ گئے ہیں حالانکہ قاعدے و قانون اور رواج کے مطابق ریاست کی ذمہ داری صرف لاشیں اُٹھانا نہیں، زندگیاں بچانا ہے۔ لیکن اس کے لئے تو ریاست کو ذمہ داری لینی ہوتی ہے اور عوام کے لئے پہلے سے اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں جیسا کہ خطرناک علاقوں کی نشاندہی کی جاتی،سیاحوں کی تعداد کو محدود کیا جاتا،موسمی الرٹس جاری کیے جاتے،پلوں اور راستوں کی مرمت کی جاتی۰۰۰۰ اور سب سے بڑھ کر قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنا کام کرتے…تو آج ہم یقینا کف افسوس نہ مل رہے ہوتے۔اب وقت آ چکا ہے کہ حکومت صرف “ری ایکٹو” نہیں، “پری وینٹیو” اقدامات کرے۔ سیاحت سے آمدنی حاصل کرنا اچھی بات ہے، مگر اس کے ساتھ حفاظتی اقدامات نہ کرنا مجرمانہ غفلت ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں ایک قومی پالیسی کی ضرورت ہے جو:
•سیاحتی مقامات پر انفراسٹرکچر کو بہتر بنائے۔
•مقامی افراد کو تربیت دے اور سب سے ضروری ہے کہ ایمرجنسی رسپانس سسٹم کو فعال کرے۔
          ورنہ ہم یونہی لاشیں اُٹھاتے رہیں گے، تعزیتیں کرتے رہیں گے اور اگلا سانحہ کسی اور وادی کسی اور دریا کے کنارے ہمارا منتظر ہو گا۔
جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.