لیاقت چھٹہ کے گمراہ ہونے کی کہانی اور سازشی تھیوری ناکام

63

اداریہ

پاکستان میں ہر الیکشن پر دھاندلی کا بیانیہ لے کر افراتفری پھیلانے کا مقصد جمہوری نظام کو نقصان پہنچانے کے سوا کچھ نہیں
اس بار الیکشن 2024ء کے نتائج کو متنازع قرار دینے کی خاطر جیتنے اور ہارنے والے بھی سازشی چکر میں آگئے
زیادہ ووٹ لینے والی پی ٹی آئی کا المیہ یہ رہا کہ اس نے پارلیمانی سیاست کی بجائے سٹریٹ ایجی ٹیشن کو اپناتے ہوئے اپنے ووٹرز کو مایوس کیا ۔
اس الیکشن کو متنازع بنانے کیلئے شور برپا کیا گیا جس پر دو بڑی جماعتیں بھی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہونے کے باوجود گریزاں رہیں
کچھ دن کی تاخیر کے بعد جب حالات سیاستدانوں کے ہاتھ سے نکلنے لگے تو ملکی مفاد میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے شراکت اقتدار کا معاہدہ کر کے بے یقینی ختم کردی ۔
حکومت سازی کا عمل شروع ہوا تو کئی سازشی تھیوریاں بھی دم توڑنے لگیں
ماضی کے افضل خان کی طرح لیاقت علی چٹھہ کا بیانیہ بھی پٹ گیا اور انہیں کچھ پزیرائی نہ ملی
جس پر اب نیا موڑ یہ آیا ہے کہ سابق کمشنر راولپنڈی لیاقت چٹھہ نے اعتراف کیا ہے کہ
انہوں نے ایک سیاسی جماعت کے بہکانے پر انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے بیان دیا تھا۔
لیاقت علی چٹھہ نے الیکشن کمیشن میں بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا کہ
میں نے پاکستان سپر لیگ میں پریس کانفرنس کا بہانہ بنا کر ڈراما کیا
میں تمام ذمہ داری قبول کرتا ہوں اور حکام کے آگے سرنڈر کرتا ہوں۔
انہوں نے انتخابات میں دھاندلی کروانے کے بیان پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے
دھاندلی کروانے کے بیان پر معافی بھی مانگ لی ہے
اور اعتراف کیا کہ ان کے لگائے گئے تمام الزامات جھوٹے تھے۔لیاقت علی چٹھہ نے بتایا کہ
میرا بیان صریحاً غیرذمہ دارانہ عمل اور غلط بیانی تھی
اور اعتراف کیا کہ کوئی بھی ریٹرننگ افسر دھاندلی جیسے کسی بھی عمل میں ملوث نہیں تھا
میں نے پنڈی ڈویژن میں الیکشن ڈیوٹی سرانجام دینے والے کسی بھی ریٹرننگ افسر کو کسی کی حمایت یا انتخابی عمل میں مداخلت کا حکم نہیں دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ 9 مئی واقعات میں مفرور ایک سیاسی جماعت کے رہنما سے میرے اچھے تعلقات تھے، میں سیاسی جماعت کے عہدیدار کی خفیہ مدد بھی کرتا تھا، میں نے 32 سال سرکاری خدمات انجام دیں، میں 13 مارچ کو ریٹائر ہو رہا تھا اور مستقبل اور سرکاری مراعات چھوٹنے سے پریشان تھا۔
انہوں نے بتایا کہ سیاسی جماعت کے رہنما میرے ریٹائرمنٹ کے حوالے سے جانتے تھے
میں 11 فروری کو خفیہ طور پر لاہور گیا اور اس رہنما سے ملاقات کی
اسی ملاقات میں رہنما نے مجھے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگانے اور
اداروں کو بدنام کرنے پر مستقبل میں اعلٰی عہدے پر فائض کرنے کی یقین دہانی کروائی
اس رہنما کے مطابق ان کی جماعت کی اعلیٰ قیادت کی ہدایت پر یہ منصوبہ ترتیب دیا گیا ہے
منصوبے کو سیاسی جماعت کی اعلیٰ قیادت کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ لہٰذا میں نے انہی سیاسی جماعت کے عہدیدار کے کہنے پر عمل کیا

ابتدائی طور پر مجھے بتایا گیا کہ میں اپنے مؤقف کو لکھ کر اپنے استعفی کا حصہ بناؤں گا لیکن رہنما نے اس خیال کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ یہ سنسنی پھیلانے میں کار آمد ثابت نہیں ہوگا
بعد ازاں تفصیلی گفتگو کے بعد یہ طے پایا کہ میںنے پریس کانفرنس منعقد کروں گا
اس پریس کانفرنس کا بنیادی مقصد سنسنی پھیلانا ہوگا۔
ڈراما اور سنسنی پھیلانے کے لیے ہی میں نے پریس کانفرنس میں خودکشی کرنے اور
پھانسی پر لٹکانے جیسے جذباتی بیانات دیے۔
سابق کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ نے بتایا کہ میں نے اپنے بیان میں چیف جسٹس کا نام بھی جان بوجھ کر شامل کیا جس کا مقصد عوام میں نفرت بھڑکانا تھا۔
پریس کانفرنس کا مقصد ملک میں ہونے والے انتخابی عمل کو داغدار کرنا تھا
ایسا کرنے کے لیے اداروں پر سوالات اٹھانا ضروری تھا،
یہی وجہ تھی کہ میں نے چیف الیکشن کمشنر کا نام بھی پریس کانفرنس میں لیا۔
یاد رہے کہ 17 فروری کو راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے لیاقت چٹھہ کا کہنا تھا کہ
مجھے نگران حکومت نے الیکشن کروانے کے لیے لگوایا تھا، الیکشن ٹھیک نہیں کروا سکا، استعفیٰ دیتا ہوں۔
کمشنر راولپنڈی نے کہا تھا کہ میں ڈیوٹی ٹھیک سے نہیں کر سکا
قومی اسمبلی کے 13 کے حلقوں کے نتائج تبدیل کیے گئے، ہارے ہوئے امیدواروں کو جتوایا گیا۔
ان حالات میں اب ایک سازشی تھیوری تو ناکام ہوچکی ہے
نئی حکومت کے آنے سے قبل ہی اس کے خلاف کئی طرح کے محاذ کھل چکے ہیں ۔
اب عوام ہی انتشار کی سیاست کرنے والوں کو مسترد کرکے حکومت کے ہاتھ مضبوط کریں گے تو معاشی ترقی کے آثار نمایاں ہوں گے ۔

24/02/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/02/p3-18-1-scaled.jpg

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.