پاکستان کانامی گرامی صحافی سہیل وڑائچ بھی اگر فیک نیوز دے سکتا ہے تو عہد حاضر کے انکے دیگر ہم عصروں سے کیا توقعات باندھی جاسکتی ہیں ؟ یہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ کسی صحافی کے کالم کا ایک جملہ ٹرینڈ بن جائیگا سہیل نے حال ہی میں اپنے ایک کالم میں آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر سے بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں ہونے والی اپنی ’پہلی ملاقات‘ کا احوال بیان کرتے ہوئے
اپنے کالم جس کا عنوان ’فیلڈ مارشل سے ملاقات‘ تھا، میں لکھا کہ بالآخروہ پہلی ملاقات بیلجیم کے شہر برسلز میں ہوئی، یہ پہلی ملاقات تھی،میں نے نہ کبھی خفیہ ملاقات کی تھی اور نہ آج کی ، یہ ایک عاجز صحافی اور فیلڈ مارشل کی ملاقات تھی جس میں میرے کھردرے سوالات تھے اور انکے واضح اور شفاف جوابات۔ بات سیاست سے شروع ہوئی اوربالخصوص ان افواہوں پر کہ صدرِپاکستان اور وزیراعظم کو تبدیل کرنے پر کام ہو رہا ہے۔جنرل عاصم منیر نے برسلز کے جلسے میں اور میرے ساتھ دو گھنٹے کی طویل نشست میں واضح طور پر کہا کہ تبدیلی کے بارے میں افواہیں سراسر جھوٹ ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ سب خبریں تو سول اور عسکری ایجنسیوں کی طرف سے آئی ہیں تو انہوں نے کہا کہ ایسا ممکن نہیں دراصل ا نکے پیچھے حکومت اور مقتدرہ دونوں کے مخالف اور سیاسی انارکی پیدا کرنیوالے عناصر ہیں، اپنے عزائم پر انہوں نے اسٹیج پر کھڑے ہو کر کہا کہ ’’خدا نے مجھے ملک کا محافظ بنایا ہے مجھے اسکے علاوہ کسی عہدے کی خواہش نہیں ،میں ایک سپاہی ہوں اور میری سب سے بڑی خواہش شہادت ہے، جنرل عاصم منیر بار بار سیاسی حکومت کے تدبر اور بالخصوص وزیراعظم شہباز شریف کے 18 گھنٹے پر خلوص کام کرنے کو سراہتے رہے انہوں نے کہا جنگ کے دوران وزیراعظم اور کابینہ نے جس عزم اور حوصلے کا مظاہرہ کیا اسکی تعریف کی جانی چاہئے۔‘‘
سیاسی حوالے سے کئے گئے سوال پر انہوں نے کہاکہ سیاسی مصالحت سچے دل سے معافی مانگنے سے ممکن ہے، اس حوالے سے انہوں نے اسٹیج پر قرآن پاک کی آدم کی تخلیق او رشیطان کے کردار کے حوالے سے آیات کا متن اور ترجمہ سنایا جس سے واضح ہوتا تھا کہ شروع میں فرشتوں کو آدم سے مسئلہ تھا مگر خدا نے آدم کو تخلیق کیا تو سوائے ابلیس کے سب فرشتوں نے انسان کو خدا کا حکم اور کرشمہ سمجھ کر قبول کرلیا۔
گویا معافی مانگنے والے فرشتے رہے اور معافی نہ مانگنے والا شیطان بن گیا، معاشی بحران کے حل کے حوالے سے انکے پاس پورا روڈ میپ تھا جس میں پانچ اور دس سال کے اندر پاکستان کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے کی منصوبہ بندی تھی،انہوں نے حساب کتاب لگا کر بتایا کہ اگلے سال سے ریکوڈک سے ہر سال دو ارب ڈالر کا خالص منافع ہوگا اور جو ہر سال بڑھتا جائیگا، انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے پاس نایاب زمینی خزانہ ہے اس خزانے سے پاکستان کا قرضہ بھی اتر جائے گا اورپاکستان کا شمار جلد ہی خوشحال ترین معاشروں میں ہونے لگے گا۔
بین الاقوامی حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاکستان کو چین اور امریکا کے درمیان توازن برقرار رکھنے کا طویل تجربہ ہے ’’ہم ایک دوست کیلئے دوسرے کو قربان نہیں کریں گے‘‘ انہوں نے صدر ٹرمپ کی امن کی خواہش کو جینوئن قرار دیا اور کہا کہ پاکستان نے صدر ٹرمپ کیلئے نوبل انعام کی سفارش میں پہل کی اب باقی دنیا ہماری پیروی کر رہی ہے۔
فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر ہر موقع پر بھارت اور اس کے ہندو توا رہنما مودی کے مذموم عزائم کو بے نقاب کرتے رہتے ہیں ، برسلز میں بھی انہوں نے جہاں بھارت کو متنبہ کیا کہ وہ پراکسیز کے ذریعے پاکستان کے امن کو تباہ نہ کرے وہاں انہوں نے افغان حکومت کو بھی وارننگ دی کہ طالبان کو پاکستان میں دھکیلنے کی پالیسی بند کی جائے ورنہ ایک ایک پاکستانی کے خون کا بدلہ لینا ہم پر واجب ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نے افغانوں پر سالہا سال تک مہربانیاں اور احسانات کئے اسکا بدلہ اتارنے کی بجائے ہمارے خلاف بھارت سے ملکر سازش کی جارہی ہے۔
یورپ کےمرکزی شہر برسلز میں ہونیوالی یہ کانفرنس اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن کے سربراہ سید قمررضا شاہ اور میرے فیملی فرینڈ اور مہربان سردار ظہور نے ملکر کروائی تھی اس میں یورپ بھر سے سینکڑوں اوورسیز پاکستانی شریک ہوئے ، جنرل عاصم منیر کا جنگ کے فاتح کے طور پر استقبال ہوا، ایک اوورسیز نے تو جھک کر انکے ہاتھوں کو چوما، کئی ایک نے صدیوں کے بعد کسی مسلمان ملک کی کافر ملک پر فتح پر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔
جنرل عاصم منیر ذاتی طور پر تکبّر سے کہیں دور ہیں حالانکہ عام طور پر حکمرانوں اور جرنیلوں کے اردگرد ’’ہٹو بچو‘‘ کا شور ہوتا ہے مگروہ گھنٹوں کھڑے ہو کر کم از کم دو تین سو لوگوں سے ملے ہر ایک سے مصافحہ کیا انکے ساتھ تصویر بنوائی اور ہر ملاقاتی کے ایک آدھ سوال کا جواب بھی دیا انکے چہرے پر کوفت نہیں بلکہ ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔
ایک دو ساتھیوں نے مشورہ بھی دیا کہ اتنے لوگوں سے ملنا بدانتظامی پیدا کر دے گا مگر انہوں نے عجز سے کہا کہ یہ لوگ بہت دور دور سے آئے ہیں
’سیاسی حوالے سے کیے گئے سوال پر فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے کہا کہ سیاسی مصالحت سچے دل سے معافی مانگنے سے ممکن ہے‘ تاہم کالم میں سہیل وڑائچ کی جانب سے یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ سوال کس سے متعلق تھا اور آرمی چیف کے جواب کا ہدف کون تھا۔
یہ کالم اخبار کی زینت بنتے ہی پاکستانی میڈیا کی بریکنگ نیوز بن گیا اور اگلے روز کم و بیش تمام اخبارات کی شہ سرخی یہی ٹھہری
راقم نے خود اس موضوع پر وی لاگ کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کی صحافت کو معتبر اور قابل اعتماد گردانا تاہم اتنی گزارش ضرور کی تھی کہ آئی ایس پی آر کی جانب