بالآخر وہ ملاقات ہوگئی جس پر پاکستان ‘ بھارت سمیت پوری دنیا کی نظریں جمی ہوئی تھیں۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادی میر پیوٹن ملاقات سے قبل توقع یہی کی جا رہی تھی کہ روس ‘یوکرین جنگ پر کوئی ٹھوس معاہدہ ہو جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
جنگ بندی کے حوالے سے نہ تو کوئی فیصلہ کیا گیا اور نہ ہی کسی قسم کی ڈیل کا ذکر کیا گیا۔
ملاقات سے چند روز قبل امریکہ کی جانب سے بھارت کو خبردار کیا گیا تھا کہ اگر ٹرمپ-پیوٹن مذاکرات ناکام ہوئے تو امریکہ بھارت پر ٹیرف بڑھا سکتا ہے۔
ملاقات کے بعد ٹرمپ نے بہت سی باتیں کیں ۔ روس ‘ یوکرین جنگ کے تذکرے کے ساتھ ساتھ انہوں نے بھارت پر جاری اپنی لفظی گولہ باری کا سلسلہ جاری رکھا ۔انہوں نے کہا کہ ’روس نے اپنے تیل کے لیے ایک بڑا گاہک کھو دیا، جو بھارت تھا۔ تیل کی تجارت کا 40 فیصد بھارت خرید رہا تھا۔ اگر میں اب ثانوی پابندیاں لگاتا ہوں تو یہ ان کے لیے تباہ کن ہوگا۔‘
ٹرمپ کے ٹیرف کے اعلان کے باوجود، ایسی اطلاعات ہیں کہ بھارت کی روسی تیل کی خریداری پہلے کے مقابلے میں 2 ملین بیرل یومیہ (bpd) ہو گئی ہے۔
ایک عالمی ریئل ٹائم ڈیٹا اور تجزیاتی کمپنی کپلر کے مطابق اگست کے پہلے نصف میں سمندر پار سے بھارت پہنچنے والے خام تیل کے 5.2 ملین بیرل یومیہ میں سے، 38 فیصد روس سے آئے۔
روس سے درآمدات 20 لاکھ بیرل یومیہ رہے جو جولائی میں 16 لاکھ بیرل یومیہ تھے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت پر انتیس فیصد ٹیرف کا اعلان کیا تھا جو بعد ازاں بڑھا کر پچاس فی صد کر دیا جو کہ ایشیائی خطے میں کسی بھی ملک پر عائد سب سے زیادہ ٹیرف ہے۔ یہ ٹیرف 27 اگست سے نافذ العمل ہوں گے۔
بھارت نے اس ٹیرف کی شرح پر عوامی سطح پرتو اعتراضات اٹھائے ہیں لیکن سفارتی سطح پر آفیشلی کوئی اقدام نہیں کیا ہے۔ بھارت نے کہا تھا الٹا یہ کہہ کر کہ امریکہ اور یورپ خود روس سے یورینیئم اور کھاد خریدتے ہیں جلتی پر تیل ضرور ڈالا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ٹرمپ ‘ پیوٹن ملاقات کے بعد انڈیا پر عائد امریکی ٹیرف کا مستقبل کیا ہوگا ؟
2024 میں بھارت کی کل برآمدات کا 18 فیصد امریکہ کو گیا۔ لیکن 50 فیصد ٹیرف سے بھارت امریکی مارکیٹ میں اپنے حریفوں سے پیچھے رہ جائے گا۔
مثال کے طور پر امریکہ کی تجارت میں ویتنام اور بنگلہ دیش کا نمایاں حصہ ہے۔ لیکن ان پر صرف 20 فیصد ٹیرف لگایا گیا ہے۔
بھارت دنیا کا تیسرا سب سے بڑا خام تیل درآمد کرنے والا ملک ہے۔ ملک کی تیل کی تقریباً 85 فیصد ضروریات درآمدات کے ذریعے پوری کی جاتی ہیں۔
یوکرین جنگ سے پہلے بھارت تیل کی زیادہ تر درآمدات کے لیے مشرق وسطیٰ کے ممالک پر انحصار کرتا تھا۔
مالی سال 2017-18 میں بھارت کی تیل کی خریداری میں روس کا حصہ صرف 1.3 فیصد تھا۔ لیکن یوکرین کی جنگ کے بعد حالات بدل گئے۔
روسی خام تیل کی قیمت گرنے سے روس سے بھارت کی درآمدات میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ مالی سال 2024-2025 تک بھارت کے خام تیل کی درآمدات میں روس کا حصہ 35 فیصد تک پہنچ جائے گا۔
سستے خام تیل کی دستیابی کے باوجود دلی میں پیٹرول کی اوسط خوردہ قیمت گذشتہ 17 مہینوں سے 94.7 روپے فی لیٹر پر مستحکم ہے۔
یعنی کم قیمت کا فائدہ صارفین تک نہیں پہنچا۔
پیوٹن سے ملاقات کے بعد ٹرمپ کی گفتگو اور باڈی لینگوئج سے نہیں لگتا کہ انکے رویے میں کسی قسم کی تبدیلی آئی ہو۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ بھارتی حکومت کو روس سے تیل خریدنے کی قیمت چکانی ہوگی اگر بھارت نے روسی تیل کی خریداری بند نہ کی تو اس پر مزید تجارتی پابندیاں اور ٹیرف نافذ کیے جائیں گے۔
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ روس سے تیل خریدنے کی وجہ سے چین پر بھی مزید سخت ٹیرف عائد کیا جاسکتا ہے جبکہ روس پر ٹیرف کا تعین بعد میں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت پر 50 فیصد ٹیرف عائد کیے جا چکے ہیں اور آئندہ مزید سخت اقدامات متوقع ہیں۔
صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ان کی معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں امریکی اسٹاک مارکیٹ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، مہنگائی میں کمی آئی ہے اور تنخواہوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ان کے مطابق ایپل سمیت کئی بڑی ٹیک کمپنیاں امریکا واپس آ رہی ہیں، اور ملک میں سیکڑوں ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔
انہوں نے بگ بیوٹی فل بل کی منظوری کو معیشت میں بہتری کی بڑی وجہ قرار دیا اور کہا کہ ایپل مزید 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ امریکا میں مصنوعات بنائیں گے تو کوئی اضافی چارج نہیں ہوگا۔
عالمی امور پر بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے انکشاف کیا کہ انہوں نے ایرانی، اسرائیلی اور دیگر 5 جنگیں ختم کرا دی ہیں، جبکہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے حالیہ گفتگو کو اچھی بات چیت قرار دیا، تاہم انہوں نے کہا کہ وہ اسے کوئی بریک تھرو نہیں کہیں گے۔
صدر ٹرمپ نے جارجیا میں فوجی اڈے پر حملے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اس واقعے میں دو افراد شدید زخمی ہوئے ہیں جن کی حالت تشویشناک ہے۔
یوکرین جنگ پر بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے الزام عائد کیا کہ یہ جنگ جوبائیڈن کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے، اور آج بھی وہاں اموات ہو رہی ہیں۔
صدر نے مزید کہا کہ وہ سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے خلیجی ممالک سمیت کئی ملکوں کے دورے کر چکے ہیں اور ٹیرف کے ذریعے امریکا میں اربوں ڈالر آ رہے ہیں، اور یہ ہماری معاشی خودمختاری کی طرف اہم قدم ہے۔
امریکی صدر کی الاسکا میں اپنے روسی ہم منصب سے ملاقات کے دنیا کی سیاسی و اقتصادی صورت حال میں تبدیلی کے اشارے ملتے ہیں خاص طور پر بھارت کی روس سے تجارت اور تیل کی دھڑا دھڑ خریداری امریکہ کیلیے تشویش کا باعث ہے۔ دیکھتے ہیں امریکہ کی جانب سے بھارت پر