پاکستان میں پانی کی صورتحال۔۔۔۔۔۔اور نئی حکومت کی ترجیحات

52
تحریر: شاہنواز خان

 اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر کے انسانوں کو پانی کے مسائل کی سنگینی سے آگاہ کرنا اور ان کومسائل کے حل کی کا شعور دیناہے
تاکہ وہ ان ماحولیاتی  مسائل کے نقصانات سے آگاہ ہوں اور ماحول کے تحفظ کی جدوجہد میں شامل ہوں۔ 
 اقوام متحدہ کے زیراہتمام اس دن دنیا بھر میں تقریبات منقعد کی جاتی ہیں دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان بھر میں مختلف حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کی جانب سے اس دن پر پروگرام منعقد کے جاتے ہیں
۔پاکستان  مین  اس  وقت  جہموری  حکومتیں  قایم  ہیں  اور  ان  کے  منشور  میں  ماحولیاتی مسائل کو ترجیحی بنیادوں  پر  حل  کرنے  کےوعدے  کیے تھے  اور  اب  ان  کے  حل  کا وقت  شروع  ہونا  چاہے۔

پاکستان  کا شمار دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 10 ممالک میں ہوتا ہے ۔
پچھلی صدی کے دوران، ملک میں سالانہ اوسط درجہ حرارت میں تقریباً 0.63 ° کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔
اسی  طرح پاکستان کا شمار اس وقت دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے
جو پانی کے سنگین بحران کا شکار ہیں۔اس سنگینی کا احساس ہمیں شاید بہت دیر بعد ہوا ہے
اس وقت حکومت  کے ساتھ خصوصی طور پر  عدلیہ نے ماحولیاتی صورتحال کا نوٹس لیا ہوا ہے اور وہ ماحولیاتی مسائل پر  محکموں  کی کارکردگی کو مانیٹر کررہی ہے۔ 


پاکستان کا انڈس بیسن ایریگیشن سسٹم ہونے کے باوجود ملک میں پانی کی قلت بڑھتی جارہی ہے، جو دنیا کا سب سے بڑا مربوط آبپاشی کا نظام ہے
پاکستان کے کل قابل تجدید آبی وسائل کا تقریباً 95 فیصد سندھ طاس سے آتا ہے۔
ایک دریائی نظام پر یہ زیادہ انحصار پاکستان کے آبی ماحول کو نسبتاً زیادہ خطرناک بنا دیتا ہے
ملک کی پہلی دو سالہ اپڈیٹ رپورٹ (2022) کے مطابق، اس وقت پاکستان کے تقریباً 93 فیصد آبی وسائل زراعت میں استعمال ہوتے ہیں، 5 فیصد گھریلو شعبے میں اور صرف 2 فیصد صنعتی شعبے میں استعمال ہوتے ہیں۔
تاہم، گھریلو اور صنعتی شعبے کے استعمال میں 2025 تک 15 فیصد تک اضافے کا امکان ہے، جس کی وجہ سے زرعی شعبے کے حصے میں کمی آئے گی
غذائی تحفظ پر سمجھوتہ کیے بغیر آبپاشی کے لیے پانی کی فراہمی پاکستان کے لیے ایک پیچیدہ چیلنج ہوگا۔
تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ، پاکستان پانی کی قلت کی صورت حال کی طرف بڑھ رہا ہے
جس سے غذائی تحفظ کو خطرہ لاحق ہے۔ ملک کی قومی آبی پالیسی (2018) کے مطابق، فی کس سطح پر پانی کی دستیابی پہلے ہی 1951 میں 5,260 مکعب میٹر سالانہ سے کم ہو کر 2016 میں تقریباً 1,000 کیوبک میٹر رہ گئی ہے۔
یہ مقدار مزید کم ہو کر تقریباً 860 کیوبک میٹر رہ سکتی ہے۔
پاکستان کی “پانی کے دباؤ والے” ملک سے “پانی کی کمی” والے ملک میں تبدیلی کا امکان ہے۔
واٹر ایڈ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے
جنہیں پانی کی شدید کمی کا سامنا ہے۔

آزادی کے وقت پاکستان میں ایک فرد کو سالانہ 5600کیوبک فٹ پانی میسر تھا
جو آج کم ہوکر 1017کیوبک فٹ سالانہ رہ گیا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ ہم نے تین گنا پانی استعمال کر لیا ہے
جس بے دردی سے ہم نے پانی استعمال کیا  یہ سب اسکا  نتیجہ ہے۔

آج پاکستان میں 16 ملین پاکستانی آج غیر محفوظ پانی پینے پر مجبور ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 89%واٹر سپلائز کا پانی بھی غیر محفوظ ہے
ہم دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہیں جہاں کے  زیادہ تر لوگوں کو صاف پانی میسر نہیں ہے۔
حالات یہ ہیں کہ پاکستان تین میں ایک سکول میں پینے کے لئے پانی میسر نہیں۔
یونیسف کی رپورٹ کے مطابق   40 فیصد سے زیادہ بیماریاں پانی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔اس صورتحال میں پاکستان نے دنیا کے ساتھ وعدہ کیا ہے 2030 اپنے تمام شہریوں کو صاف پانی اور سینٹیشن کی سہولت فراہم کرے گا۔ اقوام متحدہ نے ہدف طے کیا ہے کہ 2030تک دنیا کے ہر انسان تک صاف پانی
اور نکاسی آب کی سہولت فراہم کرنے کی جدوجہد کر نا ہے۔
اس گول کو حاصل کرنے کے لئے ہمیں صاف پانی اور نکاسی آب کی سہولت فراہم کرنے کا مشن  ہم سب کو جاری رکھنا ہے۔

پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک وقت ماحول کے سنگین مسائل سے گزر رہا ہے۔
اس کو ٹھوس اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔اس وقت پاکستان میں جہاں پانی کی صورتحال سنگین ہوگئی ہے۔
وہیں نکاسی آب کی صورتحال بھی اتنی بہتر نہیں 25 ملین افراد کو لیٹرین کی سہولت نہیں
اور وہ کھلی جگہ استعمال کر تے ہیں۔
ہر پانچ میں سے دو سکول ایسے ہیں جہاں لیٹرین نہیں ہے۔88فیصد پیٹ کی بیماریوں کی وجہ غیر محفوظ پانی اورنکاسی آب  اور صفائی کی سہولیات کا نہ ہونا ہے۔39000پانچ سال سے کم بچے  پیٹ کی بیمایوں میں مبتلا ہوکر فوت ہوجاتے ہیں۔
جن اموات کی بنیادی وجہ محفوظ پانی اور صفائی کی ناقص صورتحال ہے۔


آئین پاکستان کے آرٹیکل 24 کی شق 3 کی ذیلی شق e (ii) میں پاکستان کے تمام شہریوں کو بر وقت پینے کے صاف پانی اور نکاسی آب کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے۔
لہذا ریا ست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ہر شہری کو فراہمی اور نکاسی آب کی سہولیات فراہم کرے۔
مگر زندگی کی یہ بنیادی ضرورتیں پاکستان کے شہریوں کو میسر نہیں ہیں جس سے وجہ سے آج پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن کی اوسط زندگی دوسرے ممالک سے کہیں کم ہے۔
آیئے دیکھتے ہیں کہ اس کی بنیادی وجوہات کیا ہیں۔

جب ہم پاکستان میں صاف پانی کی فراہمی اورنکاسی آب کی سہولیات کے حوالے سے اعداد شمار دیکھتے ہیں تو صورتحال بہت مایوس کن نظر آتی ہے۔
پاکستان نہ صرف دنیا بلکہ جنوبی ایشائی ممالک میں بھی ان سہولیات کے   حوالے سے بہت پیچھے نظر آتا ہے۔
ہمارا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو
اپنی مجموعی قومی آمدنی کا سب سے کم حصہ صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کے لیے خرچ کر تے ہیں
جس سے واضح ہوتا ہے
کہ شاید یہ فراہمی اور نکاسی آب سابقہ حکومتوں کی ترجیحات میں شامل نہیں تھا۔
اقوام متحدہ کے ہزاریے کے ترقیاتی اہداف  ملینیم ڈویلپمنٹ گول  کے مطابق2015 تک،93 فیصد آبادی کو صاف پانی ملناچاہیے تھا
مگر صورت حال ہم سے کے سامنے ہے۔ 
اب دنیا نے 2030  کے لئے  (SDGsتشکیل دیے ہیں جس کے گول نمبر 6میں ہم نے دنیا سے وعدہ کیا ہے کہ 2030تک ہم اپنے تمام شہریوں کو صاف پانی اور نکاسی آب کی سہولت فراہم کریں گے۔
اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے ہمیں اپنے حالات کا جائزہ لیکر منصوبہ بندی کر نا ہوگی۔


پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ  110ملین آبادی  صوبے کے اعدادو شمار کے مطابق اس وقت پنجاب کے صرف55فیصد افراد کو
صاف پانی کی سہولت حاصل 45فیصد افراد غیر محفوظ پانی استعمال کرتے ہیں
جن افراد کو صاف پانی میسر ہے  وہ زیادہ  ترشمالی پنجاب سے ہے۔جنوبی پنجاب مطفر گڑھ،ملتان،خانیوال،لیہ،بھکر کے پانچ اضلاع ایسے ہیں۔
جہاں 5 فیصد سے کم آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر ہے۔جنوبی پنجاب کے باقی 5 اضلاع جن میں لودھراں،راجن پور،ساہیوال،پاکپتن،
جھنگ، شامل ہیں کو 10 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر ہے –
پینے کا صاف پانی جو ہر شہری کا بنیادی حق ہے اس سے بھی لوگ محروم  ہیں
اقوام متحدہ کے اہداف کے مطابق 90  فیصد کو سیوریج کی سہولت ملنی چاہیے
پنجاب کے  اعدادو شمار کے مطابق جن 58 فیصد کو سیوریج کی سہولت حاصل ہے
جن میں زیادہ تر شہری علاقے ہی شامل ہیں دیہاتی علاقوں میں یہ سہولت نہ ہونے کے برابر ہے
اگر کہیں ہے بھی تو وہ کھلی نالیوں کا نظام ہے جو چھوٹے چھوٹے جوہڑوں کا اعلی نمو نہ ہیں اور ہمہ وقت مچھروں اور گندگی سے اٹے پڑے رہتے ہیں جو کئی بیمایوں کا بنیادی سبب ہیں۔
جن اضلاع کو یہ سہولت کچھ  بہتر انداز میں میسرہے وہ پنجاب کے ترقیاتی اضلاع ہیں
اور سیوریج کی سہولت کے اعتبار سے پنجاب کے پسماندہ ترین اضلاع  میں راجن پور،لیہ،مظفر گڑھ،وھاڑی، لودھراں،خانیوال اور اوکاڑہ  سرفہرست ہیں
  سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ان اضلاع کی  70 فیصد آبادی سیوریج اور نکاسی آب سے محروم ہے
جبکہ صرف28 سے 32 فیصد آبادی کو سیوریج اور نکاسی آب کی سہولت میسر ہے۔

ایک سروے کے اعداد و شمار کے مطابق پنجاب کے بارہ اضلاع کے دیہاتی علاقوں میں پانی کے نمونے لیے گئے
جس سے پتہ چلا کہ 79% پانی پینے کے قابل نہیں ہے
اور دیگر اکیس اضلاع میں 88% تک پانی مضر صحت ہے۔
اسی طرح کنزومر رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق پاکستان کا ہر پانچواں بچہ
جس کی عمر پاچ سال سے کم ہے پانی کی بیماری میں مبتلا ہے
جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہماری آنے والے نسلیں کتنی صحتمند  اور توانا ہونگی۔


موجودہ منتخب حکومت پنجاب نے حالات کو دیکھتے ہوئے ماحولیاتی مسائل اور
پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کے لئے وافر فنڈز مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پنجاب رورل
مونسپل سروسز کمپنی قائم کی گئی ہے  جو عالمی بینک کے تعاون پنجاب کے
دو ہزار گاؤں میں صاف پانی کی فراہمی،کوڑا کرکٹ کا انتظام،سیوریج سسٹم کی فراہمی اور
حفظان صحت کا جامع پروگرام شروع کرچکی ہے 
اس حوالے سے ابتدائی مرحلے میں پنجاب کی سولہ تحصیلوں کے دوسو گاؤں میں یہ کام تکمیل کی جانب بڑھ رہا ہے،اسی تجربے کی بنیاد پر پنجاب کے دوہزار گاؤں تک اس کا دائرہ وسیع کیاجائے گا۔
کوشش کی جارہی ہے مقامی آبادی کی موثر شمولیت کو یقینی بنایا جائے تاکہ
تکمیل کے بعد اس دیکھ بھال مقامی آبادی خود کرے اور یہ منصوبہ دیرپا ثابت ہو
اس سلسلے ہر گاؤں دیہی  تنظیم بھی قائم کی گئی ہے۔

سول سوسائٹی کی کوشش ہے پانی اور نکاسی آب کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے
پنجاب اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان پر مشتمل ایک واش کو ر گروپ تشکیل دیا جائے 
جس کا بنیادی مقصد پانی فراہمی اور نکاسی کے حوالے پالیسیاں اور قانون سازی ہواس کے ساتھ
اور قانون پر عمل پر نظر رکھنے کام کرے۔گزشتہ اسمبلی میں بھی واش کو ر گروپ کام کرتا رہا ہے۔
جس کی کوششوں سے کئی قراردادز بھی پاس ہوچکی ہیں

جس میں پنجاب حکومت کو تمام شہریوں کو لیٹرین کی فراہمی کا پابند کیا گیا ہے۔
کیونکہ آج بھی پنجاب میں تقربیا 17فیصد افراد کھلے عام لیٹرین کرنے پر مجبور ہیں۔
جبکہ راجن پور اور مظفرگڑھ میں یہ تعداد40 فیصدسے زیادہ ہے۔

اب پنجاب اسمبلی کی قراداد میں حکومت کو پابند کیا گیا ہے
وہ اس حوالے سے انتظامات کرے اور اگلے پانچ سالوں میں تمام شہریوں کو یہ سہولت فراہم کیجائے۔
پنجاب اسمبلی کی جانب سے اس طرح کے اقدمات ایک موثر طریقہ کا رہے۔
جس میں ایوان اپنا کردار ادا کرتا ہے۔


اسی طرح کوڑا کرکٹ کو اکٹھا کرنا اور ٹھکانے لگانے کی صورتحال بھی بہت اچھی نہیں ہے
پنجاب کے محکمہ ماحولیاتی بچاو کی رپورٹ کے مطابق ایک دن میں
ایک شخص.283-.612 کلو گرام کوڑا کرکٹ پیدا کرتا ہے
جس کو ٹھکانے لگانے کے مناسب انتظامات نہیں تھے۔

اس صورتحال میں وزیراعظم پاکستان کی جانب سے شجر کاری  مہم شروع کی گئی ہے
جس میں نوجوان رضاکار شجر کاری  اور صفائی مہم کا حصہ بنیں گے دیکھتے ہیں
اس کے کیا نتائج سامنے آتے ہیں۔

جہاں تک نکاسی اور فراہمی کے حوالے سے قانون سازی کا تعلق ہے
پنجاب حکومت نے 2012 میں صاف پانی کی پالیسی منظور کی اور نکاسی آب کے لئے پنجاب مونسپل واٹر ایکٹ بنایا۔
اسی طرح واش کے حوالے سے دس سالہ پلان بھی تیار کیا گیا تھا

جس  کی  بدولت  حالیہ  برسوں میں، پاکستان نے اپنی واش سروسز میں کافی بہتری کی ہے۔ 

پاکستان پر ایس ڈی جی 6 کنٹری ایکسلریشن کیس اسٹڈی 2022 کے مطابق،
دیہی علاقوں کی 60% آبادی اور شہری علاقوں کی 80% آبادی کو بنیادی صفائی کی
خدمات تک رسائی حاصل ہے۔
کم از کم بنیادی پانی کی فراہمی تک رسائی فی الحال 2010 میں 85 فیصد کے
مقابلے میں 90 فیصد سے زائد آبادی پر ہے۔ شہری علاقوں میں کھلے میں رفع حاجت
کو عملی طور پر ختم کر دیا گیا ہے
اور دیہی علاقوں میں بھی اس میں بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے،
جہاں اب اس پر عمل درآمد صرف 12 ہے۔ دیہی آبادی کا % پھر بھی،
اس کا مطلب ہے کہ تقریباً 15 ملین پاکستانی اب بھی کھلے میں رفع حاجت کرتے ہیں۔
پاکستان میں حفظان صحت تک رسائی میں بھی گزشتہ برسوں میں خاطر خواہ بہتری دیکھنے میں آئی ہے،
کیونکہ پانی اور صابن سے ہاتھ دھونے کی سہولت تک رسائی
دیہی علاقوں میں 74% اور شہری علاقوں میں 90% تک بڑھ گئی ہے ۔

21/03/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p2-scaled.webp

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.