سیماب سحر کی شاعری

61

روداد خیال ۔۔صفدرعلی خاں

باشعور انسان زندگی کا مقصد جانتے ہیں ،عقل و دانش،فہم وفراست اور معاملہ فہمی سے انسانیت کی اقدار کو ملحوظ رکھنا ہی دانشوروں کو دوسروں سے ممتاز بناتا ہے ۔
دنیا میں تعلیم ہمیشہ معاملہ فہم انسانوں کو مزید نکھار دیتی ہے ۔علم وادب کی روشنی انسانیت کو معراج بخشتی ہے جن میں تخلیق کاروں کا اہم مقام ہے۔
ادیب اور لکھاریوں کی تحریریں معاشرے کو سنوارنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں ،ادب میں شاعری کو جو مقام حاصل ہے وہ کسی صنف کو نہیں ،شاعری عربوں کا خاصہ رہی اور اسکی بنیاد عربی زبان سے ماخوذ ہے۔ اردو شاعری جنوبی ایشیا کی تہذیب کا ایک اہم حصہ ہے۔
میر، درد، غالب، انیس، داغ، دبیر، اقبال، ذوق، جوش، اکبر، جگر، فیض، فراق، شکیب جلالی، احمد ندیم قاسمی، محسن، فراز، کرنل احمد نواز ،شفقت اللہ مشتاق،فرحت عباس شاہ ڈاکٹر ایوب ندیم ،زاہد عباس سید اور ڈاکڑ نوید الہی تک شعراء کے رفعت خیال سے مستفید ہونے کا موقع ملا تو سزندگی کی حقانیت ہم پر آشکار ہوتی چلی گئی ،شاعرات نے بھی ہمیں متاثر کیا ،پروین شاکرہ ،فہمیدہ ریاض اور نوشی گیلانی تک کئی شاعرات کے کلام سے زندگی کی حقیقی رعنائی کو محسوس کر چکا ہوں ۔
حال ہی میں مجھے جڑانوالہ سے تعلق رکھنے والی خوش فکر شاعرہ سیماب سحر سے ملنے کا اتفاق ہوا انہوں نے میرے ٹی وی چینل سرزمین کیلئے اپنا کلام بھی ریکارڈ کروایا اور پھر آج انکی جانب سے ارسال کردہ انکی شاعری کی کتاب میرے ہاتھ میں ہے ۔
خوبصورت ٹائٹل اور عمدہ ڈیزائن سے آراستہ 112صفحات پر مشتمل سیماب سحر کا شعری مجموعہ “کون تجھے سمجھائے شام “انکی غزلیات اور نظموں سے مرسع ہے ۔مہر گرافکس اینڈ پبلشرز نے سیماب سحر کے اس خوبصورت شعری مجموعے کی اشاعت کا اہتمام کیا ہے ۔
کتاب کی قیمت صرف 500روپے رکھی گئی ہے ۔آغاز میں خود سیماب سحر نے کتاب کا انتساب ہونی والی اس لڑکی کے حوالے سے بڑی دلچسپ بحث کی ہے ۔
شعری مجموعے میں نظموں اور غزلیات کے علاوہ کتاب کے شروع میں امام حسین علیہ السلام کے لئے اپنے سلام سے کیا ہے ،سلام کا مطلع ملاحظہ فرمائیں!

ماتمی ہے سب فضا اور غمزدہ ہر خاص و عام
ہائے آپہنچی ہے پھر صحن علی کربل کی شام

سیماب سحر نے اپنے عہد سے جڑی حقیقتوں کو انتہائی سلیقے سے پیش کیا ہے ۔براہ راست مافی الضمیر سے وہ اپنے بیانیہ کو پر اثر بنادیتی ہیں ۔وہ کہتی ہیں!

کوئی بھی اس جہاں بھر میں تیرے جیسا نہیں ملتا

حوالے تو کئی ملتے ہیں پر چہرہ نہیں ملتا

کیا یہ درد سہہ لے گا میری ماں کی جدائی کا

مرا دل پھٹ بھی سکتا ہے تجھے ایسا نہیں لگتا

سیماب سحر کے منظوم خیالات مربوط سوچ کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں ،وہ غزل کی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے جدت پسندی کی جانب گامزن نظر آتی ہے ۔شعری مجموعے میں شامل انکی غزل “کون تجھے سمجھائے شام “کے دوشعروں سے انکے اس ہنر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔

میری آنکھ میں سرخی بھر کر میری آنکھ سجائے شام

یاد تری کے جگنو کے کر مجھ سے ملنے آئے شام

شعری مجموعے کے عنوان کو اپنی غزل میں

اسی غزل کے آخری شعر یعنی مقطع میں کہتی ہیں !

تم نے جس لڑکی کو چاہا ،پار سمے کے رہتی ہے

تیرے اس کے دکھ ہیں سانجھے ،کون تجھے سمجھائے شام

سیماب سحر کو نظم کی صنف میں بھی بات کرنے کا سلیقہ آتا ہے ،انکی نظم “تم سے بات کرنی ہے ” میں سیماب سحر نے زندگی اور موت کی سچائی کو انتہائی قرینے سے بیان کیا ہے ۔اسی طرح انکی نظم “یادوں کی بوسیدہ عمارت “میں موسموں کی سرد مہری کو انسانی رویوں میں آشکار کرتے ہوئے بوڑھے درخت کے تجربات کا تجزیہ بھی پیش کیا گیا ہے ۔سمیاب سحر کی نظم “یہ جو ایک شہر ملال ہے “کے آخر میں زندگی سے جڑی امید کی رعنائی کو اس طرح بیان کیا گیا ہے !

کہیں اس زمان و مکاں سے دور
یہ جو ایک شہر ملال ہے
ترے ابر کرم کو ترس گیا
اسے بارشوں سے نہال کر
اسے پور پور بحال کر
نئے منظروں کو نمو ملے
میرے دشت جاں کو جو تو ملے ۔
سیماب سحر کی شاعری میں کئی رنگ ہیں ،وہ دنیا کو دکھ امانت کے طور پر سنبھالنے کا مشورہ دیتے ہوئے انہیں فروخت کرنے سے بھی روکتی ہیں ۔انکی شاعری سے نئی نسل کو امید کی راہ ملتی ہے ،وہ انسانی اقدارکے فروغ اور دوسروں کے جذبات کا احترام کرنے کی بات بھی شعروں میں کررہی ہیں ،سیماب سحر ہر زاویے سے مکمل شاعرہ ہیں ۔انکے کلام سے کوئی بھی شعر فہم متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.