بیاض کی بیاض سے

39

احساس کے انداز

تحریر ؛۔ جاویدایازخان

یہ اسی کی دھائی کا واقعہ ہے کہ جب مرحوم طارق عزیز کا شو  نیلام گھر اپنے عروج پر ہوا کرتا تھا  اور لوگ بڑی دلچسپی سے دیکھا اور سنا کرتے تھے ۔اسی پروگرام میں بیت بازی کا مقابلہ جاری تھا کہ ان کے سامنے ایک بچی نے یہ شعر پڑھا تو طارق عزیز  بھی چونک اٹھے اور دوبار پڑھنے کو کہا

دیتی ہے سکوں روح کو کانٹوں کی چبھن بھی

خوشبو سے کبھی ہوتی ہے سینے میں جلن بھی

احساس کے انداز بل جاتے ہیں ورنہ

آنچل بھی  اسی تار  سے  بنتا ہے کفن بھی  

انہوں نے خود پڑھ کریہ شعر  دوہرایا اور پوچھا یہ کس شاعر  کا شعر ہے ؟ اس  بچی نے کہا مجھے معلوم نہیں ہے تو انہوں نے یہ تاریخی الفاظ کہے کہ مجھے بھی معلوم نہیں ہے کہ یہ کس کا شعر ہے ؟ مگر اس شعر کا خالق جو بھی ہے وہ  اَدب کی دنیا میں ہمیشہ زندہ رہے گا ۔جی ہاں  !یہ بیاض سونی پتی کا  وہ شعر ہے جس نے اپنے خالق سے بھی زیادہ  شہرت پائی  اور ہر زبان خاصو عام کی زینت بن کر واقعی ادبی تاریخ  میں امر ہو گیا ۔اس شعر کی شہرت نے ایک قصباتی شاعر کو ملک گیر دوام بخش دیا ۔پھر تو پاکستان بھر کے ادبی حلقوں میں ان کے اشعار کی دھوم سنائی دینے لگی  اور ان کا کلام سننے او ر پڑھنے کی خواہش ہر باذوق فرد کو محسوس ہونے لگی ۔ان کے اشعار کی گونج ادب کے ایوانوں میں سنائی دینے لگی ۔رسائل ،اخبارات ،مشاعرے ٔ ،مسالمے ان کے بغیر ادھورے محسوس ہونے لگے ۔ہر ہر شعر مقبولیت کہ بلندیوں کو چھونے لگا ۔

دیپ کی لو میں رگ سنگ میں بوے گل میں

تیرا ہر رنگ میں دیکھا ہے سراپا میں نے

کہتے ہیں کہ علم ودانش وہ متاع بےبہا ہے جو فرد اور معاشرے دونوں کو زندگی کے انقلاب سے آشنا کرتی ہے ۔اہل علم معاشرے کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں ان کی فکر و دانش کو محفوظ کرنا وقت کی ضرورت ہوتی ہے ۔لیکن بدقسمتی سے بحیثیت مجموعی ہمارے ہاں شعروسخن  اور فکروفن سے متعلق طبقہ حصول روزگار کے لیے سرگرداں  رہتا ہے اور مالی پسماندگی کی باعث اپنی فکر کےاس  سرمایے کو کتابی شکل دے کر محفوظ نہیں کرپاتا ۔یہی بیاض سونی پتی کے ساتھ ہوا  ۔ان کا کوئی دیوان ان کی زندگی میں سامنے نہ آسکا ۔ان کی کاوشیں مختلف ڈائریوں اور بیاضوں میں تقسیم ہو کر ادھر اُدھر بکھرتی چلی گیں ۔ کہتے ہیں کہ مضافاتی فن کاروں میں صلاحیتوں کی کمی نہیں ہوتی لیکن مالی وسائل کی کمی کے باعث وہ دوسروں سے پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ یہی مسائل بیاض سونی پتی کو درپیش تھے روزمرہ کہ مزدوری (عرائض نویسی ) کے ساتھ ساتھ بڑی عیال داری کا بوجھ ان کی راہ میں بھی روکاوٹ تھا ۔لیکن انہوں نے فکر فن کی طویل جدجہد کا سفر جاری رکھا ۔ سب سے پہلے میرے والد صاحب  محمد ایازخان مرحوم نے نے ان کا منظوم کلام “ربوبیت ” کو کتابی شکل میں شائع کرایا پھر ان کے کلام کو اپنی کتاب “یادگار ” کا حصہ بنایا  ۔لیکن کوئی  باضابطہ شعری مجموعہ شائع نہ ہوسکا ۔ہمارے چچا نیاز کوکب مرحوم نے “احساس کے انداز ” اور آئینوں کے شہر میں ” کے نام سے ان کے کلام پر مشتمل کتب شائع تو ضرور کرائیں  مگر وہ بھی خالصتا”ان کے اشعار پر مشتمل نہ تھیں ۔بیاض سونی پتی کی وفات کے بعد نیازکوکب مرحوم نے بیاض سونی پتی ککی شعری مجموعہ ترتیب دینے کا عزم کیا اور بڑی محنت کی مگر زندگی نے مہلت نہ دی ۔ یوں اس  فریضہ  کی سعادت بھائی  محمد شاہ نواز خان کےحصہ میں آئی  اور انہوں نے بےپناہ محنت کے بعد ان کے شاگرد  اور مشہور شاعر قاسم راز کی معاونت سے اسکی تکمیل کے مراحل طے کئے اور جناب رضی الدین رضی کی خصوصی توجہ سے یہ کام اختتام کو پہنچا  اور ان کا پہلا شعری مجموعی  ” بیاض کی بیاض سے ” منظر عام پر آیا ۔جسے دیکھ ان اصحاب کی بےپناہ محنت اور بیاض سونی پتی سے لگاو ُ کا بےپناہ احساس ہوتا ہے ۔

یہ   مسند سخن    کوئی   میراث   تو نہیں

یہ شاعری ہے اس پہ بھلا کس کا حق چلے

کھو جاو ٔ گے بیاض ؔ خلاؤں کی دھند میں

تم کس خیال خام میں سوۓ افق چلے  

“بیاض کی بیاض سے “میرے نزدیک صرف ایک شعری مجموعے اور کتاب کا نام نہیں ہے ۔اردو  ادب اور شاعری کی تاریخ میں ایک منفرد اضافہ ہے  جو بیاض سونی پتی  کے فن کی اس دولت کو زندہ  جاوید رکھے گا ۔گو کہ اس کتاب کا  جاذب نظر خوبصورت ٹائٹل  ہی قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلیتا ہے جو یقینا” رضی الدین رضی صاحب کے ادارے گردوپیش پبلیکشنزکا کمال ہے ۔بیاض سونی پتی کے  اور ان کی شاعری کےبارے میں میرا ایک طویل مضمون  “احساس کے انداز ” کے نام سےشامل ہے جو اس سے قبل اردو ڈائجسٹ کی زینت بن چکا ہے ۔جہاں میں نے ان کی پوری زندگی  ،شاعری ،ادبی خدمات ،روحانی درجات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے ۔ان کی شاعری کی ہر ہر صنف کی خصوصیات کا بڑی تفصیل سے تجزیہ کیا ہے ۔بیاض سونی پتی کے مختلف  اصناف سخن پر میرے کئی مضامین بھی روزنامہ جنگ اور اردو ڈائجسٹ سمیت مختلف اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں ۔”بیاض کی بیاض سے ” پڑھ کر یقینا” احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنی شاعری کی وجہ سے مضافاتی علاقے کے لوگوں کی زندگیوں کی حقیقتوں کے ترجمان تھے ۔اور وہ اپنی شاعری کے ذریعے نچلے اور متوسط    طبقے کی آواز بن گئے تھے ۔ان کے دل میں موجود انسانیت کادرد الفاظ میں سمٹ کر ان کی شاعری میں نمائیاں محسوس کیا جاسکتا ہے۔یہ اس لیے ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری کمزور اور پسے ہوے ُ طبقے کی نبض پر ہاتھ رکھ کر کی ہے ۔جوعشق ،محبت ،حسن ،زلف و رخسار  کے قصوں کی قید سے آزاد  ایک عام آدمی کی ضروریات ،خواہشات ، مجبوریوں اور مشکلات کا احاطہ کرتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج آپ کا شمار  پاکستان کے ان منفرد اسلوب کے ایک جرات مند اور باحوصلہ شاعروں میں ہوتا ہے جن کی شاعری میں عام آدمی اور محروم طبقے کے جذبات و احساسات اور معاشرتی رویوں کا دکھ نمائیاں نظر آتا ہے ۔

اس دور میں حیات برہنہ نہیں رہی

ملبوس ہے غموں کی سنہری قباؤں میں  

دیکھا ہے میں نے غور سے یہ تیرے شہر میں

ملبوس  زرق   برق  ہیں  چہرے علیل ہیں

بیاض سونی پتی حمد ونعت ،غزل و نظم ،غرض ہر سخن شاعری کے منفرد شاعر تھے  ۔وہ اپنے دل کش اسلوب اور  متنوع موضوعات کے حوالے سے مستند سمجھے جاتے تھے ۔بیاض سونی پتی کی شاعری کسی ایک دور کی نمائندگی نہیں کرتی  ۔وہ اور ان  کی سوچ  ہر دور میں ہوا کا ایک تازہ جھونکا محسوس ہوتی ہے ۔ان کا ہر شعر دور جدید کی عکاسی کرتا ہے ۔

جسکی تخلیق ہے یہ ہاۓ وہ احساس لطیف

یہ حقیقت ہے بجا تاج محل پتھر ہے

“بیاض کی بیاض سے ” وہ شعری مجموعہ ہے جس میں بیاض سونی پتی مرحوم کے تین  ادوار کی شاعری پڑھنے کو ملتی ۔ان کا پہلا دور ان کی شاعری کی ابتدا سے شروع ہوتا ہے جہاں ایک جانب تو جوانی کی شوخیاں دکھائی دیتی ہیں  ۔اس  نوجوان  شاعر  کا ہلکا پھلکا ،سادہ و پرمعنی اور موسیقیت  سے لبریز کلام  اور اس پر شعر پڑھنے کا منفرد انداز   اہل ادب کو ان کی جانب متوجہ ہونے پر مجبور کر دیتا ہے ۔جبکہ دوسری جانب ان کی شاعری میں چھپی  تقسیم ہند اور ہجرت کے درد ناک المیے کی بےچینی اورسونی پت سے جدائی کا غم دکھائی دیتا ہے ۔یہ وہ دور تھا جب آتش جواں تھا ۔بیاض سونی پتی ایک جانب غم  روزگار اور دوسری جانب ادب اور قلم سنبھالے آگے بڑھتے دکھائی دیتے ہیں ۔جوانی کا پہلوان بننے کا شوق تھا مگر ہجرت کے خونیں مناظر ،واقعات ،اور خاندان کی ان فسادات میں تباہی کا گہرا اثر  اور پھر جذبہ حب الوطنی کے باعث شوق حصول شہادت انہیں جہاد کشمیر لے جاتی ہے۔جہاں بے پناہ بہادری پر جنگی اعزاز سے نوازے جاتے ہیں ۔وطن اور اپنی زمین سے محبت کا اظہار ان کے لفظوں سے ٹپکنے لگتا ہے ۔جہاد سے واپسی پر عرائض نویسی کو ذریعہ روزگار بناکر گزر اوقات کےساتھ ساتھ پرورش لوح وقلم بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔

اب تو ہوں گی بےتحاشا پتھروں کی بارشیں

ہم نے پھینکا پہلا پتھر آئینوں کے شہر میں

پھر دوسرا دور تب دیکھنے کو ملتا ہے جب وہ شاعری  کے ادبی حلقوں میں ممتاز ہو کر شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگتے ہیں ۔اور علاقے ہونے والے مشاعروں  کی جان ٹھہرتے ہیں ۔ رفتہ رفتہ کوٹ ادو شہر میں شاعری اور ادب کے محور بن جاتے ہیں ۔اس دور میں انہوں نے “بزم فکر وفن  ” کی داغ بیل ڈالی  اورپھر اسے پروان چڑھا کر کوٹ ادو کے لوگوں میں ادبی شعور کی بیداری  اور آبیاری کا فریضہ سنبھال لیا ۔کہتے ہیں کہ معاشرے اور نظام سے بغاوت مزاحمتی شاعری کا ایک خاصا ہے ۔یہی وہ وقت تھا جب ان کے اشعار مین باغیانہ تیور پوری آب تاب سے چمکتے دکھائی دیتے ہیں ۔جہاں انہیں اپنی شاعری پر ناز کرتے دیکھا جاتا ہے ۔جہاں وہ شعوری پختگی کے عروج  چھو  کر  اپنے دور کے نمائندہ شاعر اور بڑے دانشور شمار ہونے لگتے ہیں جہاں وہ اپنی ادبی حلقہ وسیع  تر کرتے ہیں اور ان کے کئی قابل فخر شاگرد سامنے آتے ہیں ۔شاعروں ادیبوں کی ایک نئی نسل تیار کرتےدکھائی دیتے  ہیں ۔

جس قدر دیکھو گے تم کون ومکاں کے دائرے

اس قدر بڑھ جائیں گے وہم وگماں کے دائرے

زیست کے تالاب میں گرتے رہیں گے سنگ غم

پھیلتے جائیں گے انساں کی فغاں کے دائرے

وہ خلا کے ایک نقطے میں ہیں گم ہم نے بیاض ؔ

طے کئے چشم زدن میں آسماں کے دائرے

تیرا اور آخری دور ان کی اس شاعری کا ہے جو انہیں نقشبندی سلسلے کی بیعت کے بعد  خلیفہ مجاز کے منصب تک پہنچا نے کے بعد شروع ہوتا ہے ۔اور وہ اور ان کی شاعری مکمل طور پر صوفیانہ رنگ میں ڈھل  جاتی ہے ۔اس دور میں ان کا حمدیہ و نعتیہ کلام بام عروج کو چھوتا دکھائی دیتا ہے جو ان کے روحانی جذبات کی عکاسی کرتا ہے ۔سورۃ فاتحہ کا منظوم ترجمہ  ،نبی پاک ؐ اور اہل بیت سے محبت کا اظہار اور ربوبیت جیسی شاعری بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے ۔

لوح احساس پہ جب اسم محمؐد لکھوں

سوچ کے گرد   ایک   انوار کا   ہالہ  دیکھوں

محفل ناز میں نظریں جو اُٹھانا چاہوں

چشم پر شوق پہ پلکوں کا میں پہرا دیکھوں

سبز گنبد پہ نظر آنکھ میں آنسو ہوں بیاض ؔ

لب ہو صل علیٰ کاش وہ لمحہ دیکھوں

حضرت امام حسین ؑ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوے ٔ ان کے لافانی اور بےحد مشہور اشعار ادب کی دنیا میں ہمیشہ ایک سرمایہ اور شاہکار رہیں گے ۔آپ کی اہل بیت سے محبت تو کسی سے پوشیدہ نہ تھی مگر طریقہ اظہار نے نے تو کمال ہی کردیا ہے ۔

اۓ چرخ تو نے حوصلہ دیکھا حسین کا

ہر زخم کھا کے کھلتا ہے چہرہ حسین کا

جو وقت کے یزید سے ٹکرا گیا بیاضؔ

تم جان لو کہ ہے وہی پیارا حسین کا  

اسی دور میں” بیاض اکیڈمی ” کا قیام اور فکری عروج کی بلندی دکھائی دیتی ہے ۔”بیاض کے بیاض سے “میں تینوں ادوار کی شاعری شامل ہے ۔جس میں ان کے کلام کا انتخاب اور ترتیب بہت عمدگی سے کی گئی ہے ۔لیکن ان کے کلام کا بڑا حصہ پھر بھی اس میں شامل نہیں ہو سکا اس کے باوجود  وہ تمام لوگ قابل تحسین ہیں جن کی کاوشوں سے یہ کتاب تکمیل کو پہنچی  ۔یقینا” یہ مجموعہ کلام اردو ادب اور شاعری کی دنیا میں ہمیشہ نمائیاں رہے گا ۔وہ اپنی شاعری کے بارے میں کہتے ہیں کہ

احساس کے افق سے جو ابھری کوئی کرن

میں نے قلم سے شعر کے سانچے میں ڈھال دی

میں بہر کیف رہا حسن تغزل کا امیں

رکھنا ہررنگ میں اردو کا بھرم میرے بعد

شعر پڑھ کر یہ سنا دینا اگر آجاے ٔ

کوٹ ادومیں کوئی اہل قلم میرے بعد  

کہتے ہیں کہ غم کی بڑی کاروائی یہ ہوتی ہے کہ وہ انسان کو بہت نرم کر دیتا ہے اور اگر غم نہ ہو تو انسان پتھر ہی رہتا ہے اس لیے بیاض سونی پتی احساس غم کی خواہش کا اظہار اپنے کلام میں بارہا کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔

کب عطا انسان کو ہوگا بیاض احساس غم

روح کب پتھر کے اس پیکر میں ڈالی جاۓ گی

جان جب کرنوں کی رگ سے نکالی جاۓ گی

پھر شب تاریک کی بنیاد ڈالی جاے ٔگی

جس طرح لپٹا ہوا جھاڑی سے کپڑا کھنچ لیں

اس طرح جسم سے یہ جاں نکالی جاے ٔ گی

آج بیاض سونی پتی ہم میں نہیں ہیں مگر ان کا کلام آج بھی زبان زد خاص وعام ہے۔بیاض اور ان جیسے ناجانے کتنے ہی شاعر اپنا سب کچھ ادب کی خدمت میں پیش کرکے بھی کسی سے کچھ طلب نہیں کرتے  لیکن مفاد کی عینک سے دیکھنے والے صاحب اشاعت وابلاغ کی توجہ سے محروم رہتے ہیں ۔بیاض سونی پتی اسی معاشرتی بےحسی کا شکار انتہائی غربت اور بیماری سے لڑتے ہوے ٔ ۱۷ ستمبر ۱۹۹۱ء کو جہان فانی سے خصت ہوے ٔ مگر شعروسخن کی وہ شمعیں جلا گئے جو تاابدروشن رہیں گی اور لوگ ان کے انوار سے مستفید ہوتے رہیں گے ۔ان کی مرقد  کے کتبہ پر لکھا ان کا یہ شعر ان کی اعلیٰ شاعری کی وہ مثال ہے جو انسانی زندگی کی حقیقت کو ہر لمحہ آشکار کرتا ہے ۔

ہرچیز پہ قادر وہی معبود خدا ہے

انسان تو مجبور ہے راضی با رضا ہے

کب جانیے کب اس کو بجھ دے کوئی جھونکا

یہ زیست لرزتا ہوا مٹی کا دیا ہے ۔

امید ہے کہ “بیاض کی بیاض سے “کی اشاعت بیاض کی کی شاعری کو کتابی شکل دینے کا ایک اچھا آغاز ہے اور توقع ہے کہ ان کے بقیہ کلام کو بھی کسی طرح شائع کرا کر اردو تاریخ ادب کا حصہ بنایا جاے ٔ گا۔میں شاہ نواز خان ،رضی الدین رضی  ،قاسم راز اور ان کے تمام ساتھیوں کی اس  پہلے کاوش کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جو انہوں نے ایک قصباتی اور گمنام  مگر بڑے اور عظیم شاعر کو منظر عام پر لانے میں انجام دی ہیں ۔ناجانے کتنے ہی بیاض سونی پتی جیسے شاعر اپنی پذیرائی کے منتظر ہیں  جن  کے اشعار اور جن کا کلام ان کے نام سے بھی بہت آگے نکل چکا ہے ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.