خاموشی رشتوں کو بچاتی ہے

57

تحریر : خالد غورغشتی

اگر فَضول گُوئی پر عالمی سطع کا مُقابلہ رکھا جائے تو ہماری قُوم اوّل آئے گی ۔ کیوں کہ اس قوم کا بچہ بچہ آپ کو حکمت سے لے کر سیاست اور دین سے لے کر معیشت تک ہر میدان میں بولتا نظر آئے گا پھر بھی نہ جانے ہمارے ملک میں بے روزگاری ، مہنگائی ، امراضِ بدنی اور سیاسی رسہ کشی میں روز بہ روز نہ جانے کیوں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ عورتیں تو اکثر ہوتیں ہی باتونی ہے ، ہمارے تو مرد بھی باتوں کے شاہ سوار اور قاضی نکلے ۔ دن رات زبانی کلامی وزارتِ عُظمی کی کرسی اُکھاڑنے والے اکثر سُوئی ہوئی قسمت جَگانے سے محروم رہتے ہیں ۔

ہماری بے ڈھنگی ، لچھے دار اور بے تکی گفت گو نے ہمارے گھر کے گھر اجاڑ کر رکھ دیے ، افسوس پھر بھی ہمارے زبانوں کو کہیں سے خراش نہ پہنچی، کہیں سے تالا نہ لگا ۔ یہ مسلسل ہم پہ راج کر کر کے اب ہم پناہ گزینوں کے کیمپ میں جا گُھسی ہے اور مسلسل بمباری کر کے ہماری نسلوں کو بگاڑ کر تنہا کرتے چلی جا رہی ہے۔ تا حال اس کی بمباری کا ہمیں انداز نہ ہوسکا کہ یہ کھانا کھانے کےلیے ہے ، بولنے یا کاٹنے کےلیے۔ اگرچہ اس کی وجہ سے ہم نے کتنے دل توڑے ، کتنے جسم چھلنی چھلنی کیے ، کتنوں کو مایوسی کی گُم نام وادیوں میں دھکیلا۔ کتنی روحوں کو مضطرب کیا ۔ کتنوں کے ارمان جیتے جی خاک میں ملائے ،اندازہ لگانا بعید از قیاس ہے۔

اکثر ہماری گفت گو کا آغاز دوسروں کو بیوقوف ، پاگل ، نکما ، جاہل اور کم عقل جیسے الفاظ سے ہوتا ہے ۔

سورہ نورہ میں آیت 19 میں ہے:

” وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں برا چرچا پھیلے ،ان کےلیے درد ناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں ۔ “

ہمارے مُنہ سے اکثر پیٹ پیچھے دوسروں کےلیے یہ الفاظ نکل جاتے ہیں جو کہ عیب جوئی اور غیبت میں آتے ہیں۔
موٹا ہے ، پیٹ نکلا ہوا ہے ، لمبا ہے ،کانا ہے ، قبر میں پاؤں ہیں ، لمبی منہ اور ناک والا ہے، جب دیکھوں پاگلوں کی طرح ہنستا رہتا ہے ۔

ہمارے ہاں عموماً عوام میں تین قسم کی ہی باتیں ہوتی ہیں ۔لگی لپٹی ، چٹ پٹی ، جلی کٹی ۔
پہلی قسم یعنی لگی لپٹی میں ایسی لگائی بجھائی کی جاتی ہے کہ لگ پتا جاتا ہے ۔ ایسی ایسی لگائی بجھائی ہماری زنانیاں کرتی ہیں کہ برسوں تک گھروں سے آگ نہیں بجھتی۔

چٹ پٹی یہ دوسری قسم ہے جو ہمارے عوام بہ کثرت مصالحے دار اشیا کھا کھا کرتے ہے۔ یہ اس قدر لزیز ہوتی ہے کہ کرنے والے کے علاوہ سب کو دُھول چٹا کے رکھ دیتی ہے۔

تیسری قسم جلی کٹی باتوں کی آجاتی ہے۔ ہم ویسے بھی غلامی کی چکی میں پس کر جل کٹ چکے ہیں لیکن جلی کٹی باتوں نے تو ہمیں سب کے سامنے جلا کر ہی رکھ دیا ہے۔ ہماری جلی کٹی باتوں کی وجہ سے آج ہمارے رشتے ٹوٹ پھوٹ کر رہ گئے ہیں لیکن ہم برابر جلی کٹی باتوں پر لگے ہوئے ہیں۔ شاید حضرتِ اقبال نے اسی کی غمازی کی تھی :

طاقتِ گفتار پہ ناز ہے انسانوں کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو

آج ہمارے سماجی رشتوں کی توڑ پھوڑ اور تباہی میں جلی کٹی ، چٹ پٹی اور لگی لپتی باتوں کا سو فی صد ہاتھ ہے ۔خواہ مخواہ ہر وقت بولنے کی بجائے ایک چپ سو سُکھ کا فارمولا اختیار کیجیے اور خود بھی خوش رہیے دوسروں کو بھی خوش رہنے دیجیے ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.