دعاگنج العرش اور بڑے اباجی  

57

احساس کے انداز

تحریر ؛۔ جاویدایازخان

کہتے ہیں کہ بچے کی پہلی محبت اس کا دادا  ہوتا ہے اور دادا کی آخری محبت اس کا پوتا ہوتا ہے ۔اسی لیے میں شاید اپنے دادا (بڑےابا جی ) کی آخری محبت ہی تھا ۔وہ دیوانگی کی حد تک مجھ سے پیار کرتے تھے  اور میں بھی ان کے بغیر ایک پل بھی گزارنا مشکل سمجھتا تھا ۔بڑے اباجی کی مجھ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ شدید دمہ کے مریض ہونے باوجود میری ہر جائز وناجائز خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔جب میں ان کے پاس جاتا تو شدید تکلیف کے باوجود اپنے سینے سے لگا  لیتے اور کہتے کہ جاوید کو سینے سے لگا نے سے میری آدھی بیماری دور ہو جاتی ہے ۔میں ہمیشہ رات کو ان کے ہمراہ ان سے لپٹ کر ہی سوتا تھا۔واقعی جب تک میں ان کے ساتھ رہتا وہ اپنے آپ کو صحت مند سمجھتے  اور پورا دن  میرے ساتھ مختلف سرگرمیوں میں گزارتے تھے ۔

ہمارے معمولات یہ تھے کہ صبح تہجد کے وقت وہ خود بھی اٹھتے اور مجھے بھی جگا دیتے ۔فجر کی نماز ہم دادا پوتا سامنے مسجد نواباں والی میں ادا کرتے ۔مجھے  وضو اور نماز پڑھنا انہوں نے بڑی چھوٹی عمر میں ہی سیکھا دیا تھا ۔ وہی پوری نماز  آج تک یاد ہے ۔نماز کےدوران بڑی رقت امیز دعا کرتے اور مجھے بھی کہتے کہ ہر چیز اللہ سے ہی مانگو وہی دیتا ہے ۔میں نے ایک دن پوچھا بڑےابا جی  ! اللہ میاں پیسے بھی دیتا ہے ؟ تو وہ بولے ہاں دیتا ہے مگر آنکھیں بند کرکے مانگو ۔میں نے آنکھیں بند کرکے دعا مانگی تو میرے دعاکے اٹھے ہاتھوں میں ایک سکہ آکر گرا فورا” آنکھیں کھولیں تو ایک چونی کا سکہ ہاتھوں میں چمک رہا تھا ۔پھر اکثر یہ سکے آنکھیں بند کرکے مانکنے پر  مجھے مل جاتے تھے ۔میں بڑا خوش ہوتا تو وہ  فرماتے  یاد رکھو ہر دعا  فوری  پوری نہیں ہو جاتی   اگر کبھی فورا” پوری نہ بھی ہو تو مایوس نہ ہونا  بس  مانگتے رہو  گے تو آخر کا  قبول ہو جاتی ہے ۔اس لیے خوب مانگو اور بار بار مانگو کیونکہ اللہ کو ہمارا مانگنا اور ہماری عاجزی بہت پسند ہے ۔اس وقت مجھے یہ باتیں شاید سمجھ  نہیں آتی تھیں مگر آج میں جان چکا ہوں کہ دعا کتنی تاثیر رکھتی ہے ؟مسجد سے واپس گھر آکر وہ مجھے اپنے ساتھ لٹا لیتے اور  خود بیٹھ کر پہلے قرآن پاک کی تلاوت کرتے پھر” دعا ءگنج عرش” ذرا اونچی آواز میں بڑی خوش الحانی اور محبت سے سرشار ہو کر پڑھتے ۔پھر فارغ ہوکر ایک طویل دعا فرماتے جس میں شاید ہی کوئی ایسا ہوگا جس کے لیے وہ دعا نہ کرتے ہوں ۔ خاندان کے ایک ایک بندے کا نام لے کر دعا فرماتے ۔دعا کے بعد مجھ سمیت پورے گھر کے سب جاگتے یا سوتے افراد پر پھونک مارتے  ،گھر کے  ہر ہر کونوں کو پھونکتے  تھے ۔ان کے پاس دعاءگنج العرش کا نسخہ بہت پرانا تھا جو  وہ  ایک کپڑے کے جزدان میں لپیٹ کر رکھتے تھے ۔وہ بتاتے تھے کہ یہ نسخہ انہیں ان کے بڑے بھائی محبوب خان شہید سے ملا تھا  جب وہ  ۱۹۱۴ء کی پہلی جنگ عظیم میں شرکت کے لیے جارہے تھے  اور محبوب خان کو یہ نسخہ ان کے میرے والد محراب خان نے دیا تھا ۔ ان کے بھائی محبوب خان  نے ہدایت کی تھی کہ اسے ہمیشہ اپنے سینے سے لگا کر رکھنا  تاکہ جنگ کے دوران دشمن کی گولیوں سے محفوظ رہ سکو  اور ہمیشہ اپنے   دن کا آغاز اس دعا سے کرنا  کیونکہ تمہارا  مرحوم باپ محراب خان  بھی اپنے دن کا آغاز دعاگنج العرش سے ہی کرتا تھا ۔ جنگ کے دوران یہ نسخہ میرے سینے میں محفوط ہوتا تھا اور میں گولیوں کی بوچھاڑ میں بھی محفوظ رہتا تھا۔  یہاں تک کہ ایک گولی میرے کان کو چھو کر گزر گئی مگر کوئی نقصان نہ پہنچا۔مجھے ان کی زبانی روز صبح یہ دعا سن سن کر تقریبا” یاد ہو چکی تھی ۔تو جب بھی بڑے اباجی یہ دعا پڑھتے میں بھی ساتھ ساتھ پڑھنے لگتا  تو وہ بہت خوش ہوتے تھے ۔ایک دن کہنے لگے جاوید  ! تم بھی اپنے دن کا آغاز اسی دعا سے کرنا  یہ کامیابی و کامرانی کی کنجی ہے ۔ایک مرتبہ شدید گرمی کی رات  کے آخری پہر  بڑے اباجی کو پیاس لگی اس زمانے میں بجلی نہیں ہوا کرتی تھی وہ اٹھےاور  پانی کٹورے میں انڈیلنے کے لیے گھڑے کا ڈھکن اٹھایا تو کوئی نرم سی چیزاس کے اوپر سے نیچے گر گئی ۔وہ سمجھے بڑی اماں کے پان گھڑے کے ڈھکن پرکپڑے میں لپٹے  رکھے ہوں گے جو گر گئے ہیں ۔انہوں نے نیچے سے اس کو ہاتھ سے اٹھا کر واپس  گھڑے کے ڈھکن پر رکھا تو کچھ حرکت محسوس ہوئی فورا” لالٹین جلا کر دیکھا تو وہ زہریلا کھپرا سانپ تھا ۔فورا”نیچے پھینک دیا  اور جوتی سے اسے مارا  ۔ہم سب اٹھ کھڑے ہوے تو میں پوچھا بڑےاباجی آپکو سانپ نے کاٹا کیوں نہیں ؟تو وہ بولے جو روزآنہ دعاء گنج العرش پڑھتا ہے وہ سانپ کے  کاٹنے سے محفوط رہتا ہے ۔میرے لیے یہ بڑی حیران کن بات تھی ۔میں نے  ان سے پوچھا کہ بڑے ابا جی  ! یہ  “دعاگنج  ء العرش ” آخر کیا ہے ؟ تو فرمایا یہ دعا اللہ تعالیٰ کی رحمت کا خزینہ ہے۔ کیونکہ اس دعا کے ہر جملے میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کی تعریف بڑے خوبصورت انداز میں کی گئی ہے ۔اللہ تعالیٰ کے ہر ہر نام میں بےپناہ عظمت  ہوتی ہے ۔اور ان ناموں کی تسبیح کرنے کے بہت سے مثبت  اثرات  رونما ہوتے ہیں ۔یہ وہ        دعا  ہے جو عرش عظیم سے نازل ہوئی ہے۔اور  اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے حصول کے لیے انتہائی موثر ہے ۔بےشمار اولیااللہ ،صوفیاۓ کرام نے اسے روزآنہ ایک مرتبہ پڑھنے  کو اپنا معمول رکھا ۔جو شخص  بعد نماز فجر  یا عشاء  ایک مرتبہ ایک مرتبہ اسے پڑھنے کا معمول بناۓ گا اس کے رزق میں برکت اور کشادگی پیدا ہوجاتی ہے ۔اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد حاصل رہے گی ۔دشمن ذلیل وخوار ہوگا  ،جنگ میں کفار پر غالب رہے گا ۔سفر میں عافیت نصیب ہوگی ۔اس دعاکی برکت سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوگا ۔بےاولاد  کو اس دعا کی برکت سے اولاد عطاہو  جاتی ہے ۔یہ دعا کالے جادو ،نظر بد سے محفوظ رکھتی ہے ۔زمین و آسماں کی کوئی بلا  نقصان نہ پہنچا سکے گی ۔اس دعا کے اتنے فیوض وبرکات ہیں کہ ہر  دعا قبول ہوجاتی ہے ۔روایت ہے کہ ایک روز حضور کریم ؐ  مسجد نبوی میں تشریف رکھتے تھے کہ اتنے میں حضرت جبریل علیہ والسلام تشریف لاۓ اور یہ دعا آپ ؐ کو سکھائی ۔پھر آپؐ نے  پوچھا اے جبرائیلؑ تم نے یہ کہاں سے سیکھی  تو فرمایا حضرت میکائل  علیہ والسلام سے اور حضرت میکائیل علیہ والسلام نے حضرت اسرافیل علیہ والسلام  سےسیکھی  اور حضرت اسرافیل علیہ والسلام نےحضرت  عزرائیل علیہ والسلام  سے سیکھی تو پوچھا حضرت عزارئیل علیہ والسلام نے کہاں سے سیکھی توعرض کی کہ حضرت  عزرائیل علیہ والسلام نے اللہ رب العالمین کے عرش کے آس پاس لکھے ہوے  دیکھی وہاں سے سیکھی ہے ۔ اسی لیے اس دعا کو دعأ گنج العرش کہا جاتا ہے ۔ پھر حضرت جبرائیل علیہ والسلام نے عرض کی کہ یا رسول اللہ آپ کی امت میں جو شخص اس دعا کو روزآنہ صبح پڑھے گا تو اللہ تعالیٰ اسے تین نعمتیں عطا کرے گا ۔اس کے رزق میں برکت ہوگی ،غیب سے اسے روزی پہنچے گی اور کوئی یہ نہ جان سکےگا کہ یہ کہاں سے کھاتا ہے یا اسے روزی کہاں سے ملتی ہے ؟ اس کے دشمن مقہور  اور ناکام ہونگے ۔ان  کا ہر وار خطا ہوگا ۔تمام دنیاوی آفات سے محفوظ   رہے گا ۔پھر بڑے اباجی نے فرمایا  کہ کوشش کرنا کہ روزآنہ صبح یہ دعا پڑھنا ، ورنہ ہر ہفتے پڑھنا  ،ورنہ ہر مہینے پڑھنا  ،ورنہ سال میں ایک مرتبہ ضرور پڑھنا اور اگر  یہ بھی نہ ہوسکے تو زندگی میں ایک دفعہ  تو ضرور پڑھ لی  جاے ٔ ۔اگر  کوئی خود نہ پڑھ سکتا ہو تو  دوسرے سے سن لے ۔میں نے ایک مرتبہ کہا کہ بڑے اباجی ! یہ دعا کا نسخہ پرانہ ہو چکا ہے نیا کیوں نہ خرید لیں تو مسکراے ٔ فرمایا میرے والد اور شہید  بھائی کی نشانی ہے میں نے اسے بڑا سنبھال کر رکھا ہے ۔بزرگوں کی دی ہوئی چیز ویسے ہی بہت قیمتی اور بابرکت ہوتی ہے ۔پھر کہنے لگے میرے بعد یہ نسخہ اپنے پاس سنبھال کر رکھنا یہ تمہیں میری محبت کی یاد دلاتا رہے گا ۔اس کی برکت سے میری مدد کے لیے اللہ کے ستر ہزار فرشتے ہر وقت میرے ساتھ رہتے ہیں ۔پڑھتے رہو گے تو تمہیں بھی ان کی مدد حاصل ہو جاے ٔ گی ۔ان کی وفات کے بعد یہ نسخہ میری پھوپھی زاد بہن نے لے لیا اور میں ڈھونڈھتا ہی رہ گیا ۔جب بھی کسی کتب خانے گیا دعاءگنج العرش ضرور خرید کر لایا  اور پڑھتا بھی رہا  مگر اس نسخے کی خوشبو آج بھی میرے ذہن سے نہیں نکل سکی  جی ہاں ! وہ میرے بڑے اباجی کے ہاتھوں کے لمس کی خوشبو ہے جو بچپن سے میرے ذہن میں بسی ہوئی ہے ۔اس  مقدس نسخے میں مجھے دعا کے ساتھ ساتھ اپنے بڑے اباجی کی  تصویر بھی دیکھنے کو ملے گی ۔ابھی پتہ چلا ہے کہ پھوپھی زاد بہن نے اپنی وفات سے قبل  یہ نسخہ میری بہن تک پہنچا دیا ہے ۔جو بہت جلد مجھے مل جاۓ گا میں کوشش کرونگا کہ زندگی کے آخری ایام میں اسے پڑھ بھی سکوں اور بڑے اباجی  کی طرح چوم کر سینے سے لگا بھی سکوں گا ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.