قوم سیلاب زدگان کے غم میں برابر کی شریک ہے

آج کا اداریہ

5

خیبر پختونخوا میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ مختلف اضلاع میں پچھلے 48 گھنٹوں کے دوران ہونے والی بارشوں اور سیلابی ریلوں سے کے باعث مختلف حادثات میں مزید 44 افراد ہلاک اور 55 زخمی ہوئے۔کل تعداد 4 سو سے تجاوز کرچکی ہے۔
پی ڈی ایم اے کی جانب سے جاری تازہ رپورٹ کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں 370 مرد، 78 خواتین اور بچے شامل جبکہ زخمیوں میں 45 مرد، 24 خواتین اور دو بچہ شامل ہے۔
رپوٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’بارشوں اور سیلابی ریلوں کے باعث اب تک مجموعی طور پر 74 گھر وں کو نقصان پہنچا۔ جس میں 63 گھروں کو جزوی اور 11 گھر مکمل منہدم ہوئے ہیں۔‘
یہ حادثات صوبہ کے مختلف اضلاع سوات، بونیر ، باجوڑ، تورغر، مانسہرہ، شانگلہ اور بٹگرام میں پیش آئے۔
سیلابی ریلوں سے سب سے زیادہ متاثرہ ضلع بونیر ہے جہاں اب تک 184 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے اور متعدد افراد کے لاپتہ ہونے کی وجہ سے اس تعداد میں بھی اضافے کا خدشہ
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر کی تحصیل پیر بابا کے گاؤں بیشونٹری میں ایک سیلابی ریلا آنے کی اطلاع ملی تو یہاں کے ایک مقامی امام مسجد مولانا عبدالصمد نے اپنے گاؤں کے دیگر لوگوں کی طرح اپنے گھر والوں سے فوراً گھر خالی کر دینے کو کہا اور خود نوافل ادا کرنے میں مصروف ہو گئے۔ کُچھ ہی دیر کے بعد جب وہ اپنے گھر واپس پہنچے تو سیلابی ریلا ان کے گھر سمیت کئی دیگر گھروں کا نام ونشان کو مٹ چکا تھا۔
سیلابی ریلے میں بہہ جانے والے گھر میں مولانا عبدالصمد کے خاندان کے پانچ افراد رہتے تھے جن کی خیریت کے کے بارے میں اب تک کوئی کُچھ نہیں جانتا۔
پیر بابا صاحب کے سابق تحصیل ناظم اشفاق احمد اسلام آباد میں موجود تھے کہ جب انھیں گھر سے اطلاع ملی کہ سیلابی پانی کا ایک بڑا ریلا آرہا ہے۔ جس پر انھوں نے گھر والوں کو کہا کہ فوراً کسی محفوظ مقام کی جانب روانہ ہو جائیں تاہم کُچھ ہی دیر کے بعد گھر والوں کی خیریت معلوم کرنے کے لیے جب چند ہی منٹ بعد انھوں نے دوبارہ کال کی تو پوری پشوڑی گاون میں کسی کا نمبر نہیں مل رہا تھا اور جب وہ اس بے چینی کے عالم میں اپنے گاؤں پہنچے تو وہاں ہر جانب قیامت کا سا منظر تھا۔
کے گھر سمیت کوئی بھی گھر سلامت نہیں تھا۔ ہر طرف تباہی پھیلی ہوئی تھی۔ جو لوگ پانی میں بہہ جانے سے بچ گئے تھے وہ شدید زخمی تھے۔

سیلابی ریلے کے وقت اشفاق احمد کے گھر میں 14 افراد تھے جن میں سے چار افراد کی لاشیں ملی ہیں جبکہ 10 ابھی تک لاپتا ہیں۔
ایک خاندان کے دو افراد بچ گے تھے کیونکہ سیلابی ریلے کے وقت وہ درخت پر چڑھ گے تھے جب کہ ان کے خاندان کے باقی نو افراد کا کچھ پتا نہیں۔
ریسیکو 1122 بونیر کے مطابق بیشونٹری گاون کی آبادی تقریباً ایک ہزار ہے۔

محمد اسلام کہتے ہیں کہ ’میں تقریباً اڑھائی بجے بیشونٹری گاؤں پہنچا۔ گاؤں میں ہر طرف ویرانی اور موت کا سایہ تھا۔ وہاں پر گھر مٹ چکے تھے اور جو لاشیں ملبے کے نیچے سے نکالی جا رہیں تھیں ان کے رکھنے کے لیے بھی کوئی مناسب جگہ نہیں تھی۔‘

’سینکڑوں لوگ مدد کے لیے پہنچ گے تھے اور مغرب تک لوگ قبریں کھودتے رہے اور لاشوں کو تلاش کرتے رہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میرے ایک رشتہ دار کے خاندان میں سے صرف دو لوگ بچے ہیں۔ وہ بھی اس وجہ سے کہ وہ درخت پر چڑھ گئے تھے جبکہ انھوں نے ہمیں بتایا کہ ملبے تلے چھ لاشیں موجود ہیں۔ وہ لاشیں ہم نے تلاش کرنے کی کوشش کی مگر نہیں مل سکی
پی ڈی ایم اے کے مطابق یہ حادثات صوبہ کے مختلف اضلاع سوات، بونیر، باجوڑ، تورغر، مانسہرہ، شانگلہ اور بٹگرام میں پیش آئے۔
ادارے نے تیز بارشوں اور فلش فلڈ كے باعث سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع باجوڑ اور بٹگرام کو قرار دیا ہے۔
پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ ضلع باجوڑ اور بونیر کے امدادی کاموں کے لیے ہیلی کاپٹرز بھی روانہ کر دیے گئے ہیں جہاں ریسکیو آپریشن جاری ہے
پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ بارشوں اور فلیش فلڈ کے باعث اب تک کی رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر 45 گھروں کو نقصان پہنچا ہے جس میں 38 گھروں کو جزوی نقصان پہنچا جبکہ سات گھر مکمل منہدم ہوئے۔
پی ڈی ایم اے کےمطابق امدادی ٹیمیں اور ضلعی انتظامیہ آپس میں مكمل رابطے میں ہیں اور صورتحال كی نگرانی كی جا رہی ہے جبکہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی خصوصی ہدایت پر تمام متعلقہ اداروں كو امدادی سرگرمیاں تیز كرنے كی ہدایت بھی کی گئی ہے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی ہدایت پر بارشوں اور فلش فلڈ كے باعث متاثرہ اضلاع كے لیے مجموعی طور پر 50 کروڑ روپے جاری کیے گئے ہیں۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق بارشوں اور فلش فلڈ كے باعث متاثرہ ضلع بونیر کو 15 کروڑ، ضلع باجوڑ، بٹگرام اور مانسہرہ کو10، 10 کروڑ اور سوات كو پانچ كروڑ روپے جاری کیے گئے ہیں۔
پی ڈی ایم اے کے اعلامیے کےہے مطابق تما م متعلقہ اداروں کو سیاحتی مقامات پر بند شاہراوں اور رابطہ سٹرکوں کی بحالی کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ محکمہ موسمیات نے شدید بارشوں کا موجودہ سلسلہ 21 اگست تک وقفے وقفے سے جاری رہنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔
پی ڈی ایم اے نے تمام سیاحوں کو موسمی صورتحال سے آگاہ کرنے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے
محکمہ موسمیات کی تعریف کے مطابق اگر کسی چھوٹے علاقے (ایک سے دس کلومیٹر کے اندر) میں ایک گھنٹے میں 10 سینٹی میٹر یا اس سے زیادہ شدید بارش ہوتی ہے تو اس واقعے کو ’بادل کا پھٹنا‘ کہا جاتا ہے۔
بعض اوقات ایک جگہ پر ایک سے زیادہ بادل پھٹ سکتے ہیں۔ ایسے میں جان و مال کا بہت نقصان ہوتا ہے جیسا کہ سنہ 2013 میں انڈیا کی ریاست اتراکھنڈ میں ہوا تھا

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.