خوش اخلاقی ہی کردار سازی کیلئے سب سے اہم ہے ۔اپنے ،پرائے کیساتھ نرم لہجے میں کلام کرنا ہی بزرگوں نے سکھایا اور یہی بات آج تک “پلے” باندھی ہوئی ہے ،میرے والد چودھری عنایت مرحوم ہمیشہ اپنے سے بڑوں کے ساتھ ادب سے پیش آنے کا درس دیتے رہے اور اسکے لئے وہ خود بھی عملی مظاہرہ کرتے ۔نیک وبد کی تمیز سکھانے کیلئے انکی کاوش ہمیں کبھی نہیں بھول سکتی ۔اچھے دوستوں کے ساتھ میل جول پر خوشی سے پھول جاتے اور کسی بھی نامناسب شہرت رکھنے والے کی صحبت میں گزارے ہوئے چند لمحوں پر بھی ناراضی کا اظہار کرتے ۔یہی سبب رہا کہ کبھی کسی غلط سوسائٹی میں جانے کی صورت بنی بھی تو دل نے دھتکار دیا ۔اپنے جیسے سیدھے سادھے دوستوں سے ملنا اچھا لگتا ہے ۔بہرحال زمانہ بدل گیا ہے اور اب ہماری نوجوان نسل کے حوالے سے کچھ تشویش ناک خبریں آ رہی ہیں ،کراچی میں رواں سال 6جنوری کو اغوا ہونے والے مصطفیٰ عامر کے بہیمانہ قتل کو غلط سوسائٹی کا شاخسانہ قرار دیا جاسکتا ہے ۔ مصطفیٰ اغوا اور قتل کیس کے مرکزی ملزم ارمغان کے ساتھی شیراز نے اب یہ انکشاف کیا ہے کہ نیو ایئرنائٹ پر ارمغان نے مقتول کے ساتھ ملکر منشیات کا استعمال کیا اور پھر اسے قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی۔مصطفیٰ قتل کے ملزم شیراز نے کہا ہے کہ نیو ایئر نائٹ کو ارمغان مصطفیٰ سے ناراض ہوگیا تھا جب کہ مصطفیٰ اور ارمغان دوست نہیں ہیں، مصطفیٰ ارمغان کو منشیات سپلائی کرتا تھا۔ملزم نے بتایا کہ مصطفیٰ پر کئی گھنٹے گھر میں تشدد کیا گیا اور مقتول کو جب گھر سے گاڑی میں ڈالا تو وہ زندہ تھا، مصطفیٰ کو تشدد کے بعد بلوچستان لے جا کر گاڑی سمیت جلا دیا گیا، ارمغان نے بلوچستان پہنچ کر مجھے چلنے کو کہا اور گاڑی کو آگ لگا دی۔
ملزم کا کہنا تھا کہ مصطفیٰ کی گاڑی کو آگ لگانے کے بعد ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ پیدل چلے اور پھر ایک ہوٹل پر ناشتہ کیا، ہوٹل والے نے ارمغان کے پاس اسلحہ دیکھ لیا تھا۔شیراز نے مصطفیٰ سے لڑائی اور اس کے قتل سے متعلق مزید بتایا کہ لڑکی سے ناراضگی نے ارمغان کو پاگل کردیا تھا، مصطفیٰ اور ارمغان نے پہلے منشیات کا استعمال کیا اور پھر مصطفیٰ کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ادھر اس مقدمے کے مرکزی ملزم ارمغان کے جعلی شناختی کارڈ کا پتہ چلنے پر معلوم ہوا کہ وہ کئی مقدمات میں اشتہاری ہے ،ملزم شیراز نے بتایا کہ مصطفی’ کے پاس بے حساب دولت ہے ،انکی دوستی کا محور نشے کا استعمال رہا ہے اب تک ایک اداکار کے بیٹے سمیت کراچی سے چار مزید نوجوانوں کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے اور بتایا یہ گیا ہے کہ یہ سارے ہی منشیات فروشی میں ملوث ہیں ،ظاہر ہے جب یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ نشہ ہی انکی وجہ دوستی تھا تو پھر اس کیس کو بری سوسائٹی کا ہی شاخسانہ قرار دیا جاسکتا ہے تاہم پولیس نے انٹرپول کے ذریعے تفتیش کیلئے مصطفی’ عامر کے ساتھ موجود لڑکی کے انٹر پول کے ذریعے اس لڑکی سے رابطے کی کوشش کررہی ہے ،اس کیس میں منشیات فروشی اور منی لانڈرنگ جیسے جرائم کی بھی چھان بین ہورہی ہے۔مصطفی’ قتل کیس کی گھتیاں الجھی ہوئی ہیں ۔کئی پہلوئوں پر تفتیش کا دائرہ پھیلایا گیا اور روز نئے انکشافات ہو رہے ہیں ،اس پورے کیس میں سب سے اہم بات قتل جیسے سنگین جرم کے ڈانڈے ہماری نسل کے اخلاقی انحطاط کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔ہمارے معاشرے میں نت نئے خوفناک نشے نوجوانوں کی رگوں میں سرایت کررہے ہیں جن سے وہ اپنے پرائے کی تمیز ہی بھول جاتے ہیں ،اس سے پہلے 15اگست 2024ء کو منشیات کے عادی بیٹے نے کرائے کے قاتل سے اپنے باپ ڈاکٹر شاہد صدیق کو موت کے گھاٹ اتارا ،اسی طرح نشئی بیٹے عدنان نے اپنے تاجر باپ کو قتل کروایا ۔آئس کے نشے کی لت لگنے پر اس طرح کے کئی نوجوانوں نے اپنے حقیقی والدین کے گلے کاٹے ۔اس نشے کا تاحال کوئی “اینٹی ڈوز” بھی نہیں آئی ،منشیات کی سب سے بڑی علاج گاہ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ میں بھی رش کی وجہ سے داخلے بند ہیں اور سرکاری طور پر منشیات کے مریضوں کا علاج محدود ہوکر رہ گیا ہے ،جس کے سبب نجی شعبے میں منشیات کے علاج کے نام پر کاروبار چمکایا جارہا ہے ان حالات میں حکومت کو ملک کے نوجوانوں کو نشے کے زہر سے بچانے کی خاطر فوری موثر اقدامات کرنا ہونگے ،نشے کے عادی نوجوانوں کے علاج کا بھی ترجیحی بنیادوں پربندوبست کرنا ہوگا ،نئی نسل کو غلط سوسائٹی سے دور رکھنے کے لئے والدین کو بھی اپنا کردار نبھانا ہوگا ،اچھے ،برے کی تمیز نہ سکھائی گئی تو معاشرے کو تباہی سے بچانا محال ہوگا ،نوجوانوں کو بااخلاق بناکر ہی انہیں بے راہ روی سے روکنے کے قابل بنایا جاسکتا ہے ،جس کے لئے اب ریاست کو لازمی طور پر ماں جیسا کردار نبھانا ہوگا ۔