وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان بھارتی رہنماؤں کی جانب سے لوک سبھا میں نام نہاد ’ آپریشن سندور’ کے حوالے سے کیے گئے بے بنیاد دعووں اور اشتعال انگیز بیانات کو یکسر مسترد کرتا ہے۔
بھارتی پارلیمنٹ میں نام نہاد ’ آپریشن سندور’ سے متعلق بحث پر میڈیا کے سوالات کے جواب میں ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ’ یہ بیانات حقائق کو مسخ کرنے، جارحیت کو جواز دینے اور اندرونی سیاسی فائدے کے لیے جنگی بیانیے کو فروغ دینے کے خطرناک رجحان کی عکاسی کرتے ہیں۔’
گزشتہ روز بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ میں آپریشن سندور پر ہونے والی بحث سمیٹتے ہوئے پہلگام حملے میں مبینہ سکیورٹی غفلت، پاکستانی فضائیہ کے ہاتھوں انڈین طیاروں کے نشانہ بنائے جانے کی خبروں اور جنگ بندی کروانے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دعوؤں سے متعلق اپوزیشن کے سوالوں کا جواب دینے کی بجائے پاکستان کیخلاف بے بنیاد الزامات اور اپوزیشن پر پاکستان نواز ہونے کی گردان جاری رکھی
اپنی ایک گھنٹہ 40 منٹ طویل تقریر میں انھوں نے پاکستان سے زیادہ اپوزیشن جماعت کانگریس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا ’کانگریس پاکستان کی ترجمان بن چکی ہے‘۔ انھوں نے کہا کہ انڈیا میں دہشت گردی اور پاکستان اور چین سے متعلق سارے مسائل نہرو، اندرا گاندھی اور منموہن سنگھ کی کمزور اور غیر دانشمندانہ پالیسیوں کے سبب پیدا ہوئے۔
اگرچہ انھوں نے اہم سوالوں کا جواب دینے سے تو گریز کیا مگر ’آپریشن سندور‘ میں اپنے ملک کی فوجی کامیابیوں سے متعلق بہت سے پرانے بے بنیاد دعوؤں کو دہرایا اور چند نئے دعوے بھی کیے۔
وزیر اعظم مودی کا کہنا تھا کہ آپریشن سندور نے پاکستان کی فوجی طاقت کو نیست و نابود کر دیا۔ ’اب پاکستان کو پتہ چل چکا ہے کہ اگر اس کی جانب سے دوبارہ کوئی دہشت گردانہ کاروائی ہوئی تو اسے منھ توڑ جواب دیا جائے گا، حالانکہ پاک بھارت جھڑپ میں بھارتی درگت کو دنیا بھر کے میڈیا نے نمایاں کوریج دی اور پاک فوج کے وار کو سرپرائز قرار دیا تھا بھارتی حکام کا یہ دعوی کہ آپریشن سیندور کو ختم نہیں کیا گیا ہے بلکہ اسے صرف روکا گیا ہے بھی جگ ھسائی کاباعث بن رھا ہے۔‘بھارتی حکام کی جانب سے اس قسم کے مضحکہ خیز دعوے پہلے بھی تواتر سے کیے جاتے رھے ہیں ۔گزشتہ روز بھی وزیراعظم مودی نے اسکی تکرار جاری رکھی جسے کانگریس نے مسترد کردیا۔
نریندر مودی کے طویل خطاب سے قبل اپوزیشن رہنما راہل گاندھی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے حکومت سے پوچھا تھا کہ کیا پاکستان سے مئی میں ہونے والی جنگ میں انڈین فضائیہ کے کئی جہاز مار گرائے گئے تھے؟ راہل نے مودی سے یہ بھی پوچھا تھا کہ ’اگر صدر ٹرمپ نے جنگ بندی نہیں کرائی تھی تو وہ (مودی) پارلیمنٹ میں اِس کی تردید کریں اور یہ کہیں کہ امریکہ کے صدر جھوٹ بول رہے ہیں
مودی نے اپوزیشن کے اس نوعیت کے سوالوں کو ’پاکستان کا بیانیہ‘ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’کانگریس کے پاس اب کہنے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ کانگریس کو پاکستان سے ایشوز درآمد کرنے پڑ رہے ہیں۔ وہ پاکستان کی ترجمان بن چکی ہے۔‘
انھوں نے اس سوال پر کہ انڈیا کو بین الاقوامی سطح پر حمایت نہیں ملی، کہا کہ دنیا کے تمام ملکوں نے پہلگام حملے کی مذمت کی تھی اور تین ممالک کو چھوڑ کر دنیا کا کوئی بھی ملک پاکستان کے ساتھ نہیں کھڑا ہوا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ کسی بھی ملک نے پاکستان کے خلاف فوجی کاروائی کو روکنے کے لیے نہیں کہا۔
اگرچہ وزیر اعظم مودی نے یہ کہا کہ انھیں کسی بھی عالمی رہنما نے جنگ بندی کے لیے نہیں کہا لیکن انھوں نے اتنا ضرور بتایا کہ امریکہ کے نائب صدر نے انھیں نو مئی کی رات کو فون کیا تھا۔
سوشل میڈیا پر بھی لوگ اِس کا ذکر کر رہے ہیں کہ جہاں وزیر اعظم مودی نے اپنی لمبی تقریر میں 14 بار پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کا ذکر کیا وہیں ایک بار بھی نہ ٹرمپ کا نام لیا، نہ چین کا نام لیا اور نہ ترکی کا۔
پہلگام میں مرنے والے ایک شخص شبھم دویدی کی بیوہ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ وزیر اعظم مودی نے پہلگام حملے میں مرنے والے ایک شخص کا بھی نام نہیں لیا جبکہ انھوں نے اس بات کے لیے راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے مرنے والے 26 لوگوں کے نام لیے ۔بھارتی حکام اپریشن سندور کی ناکامی کی خفٹ مٹانے کیلیے اپنے عوام سے مسلسل جھوٹ بول رہے ھیں اور پہلگام واقعے میں پاکستان کو گھسیٹنے کی ناکام کوششیں جاری رکھے ہوئے ھیں ۔
بھارت اپنے کسی بھی اسٹریٹجک مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہا، اس کے برعکس، پاکستانی افواج کی جانب سے بھارتی لڑاکا طیاروں اور فوجی اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنانا ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔
بھارتی رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ اپنے عوام کو گمراہ کرنے کے بجائے اپنی مسلح افواج کے نقصانات کو تسلیم کریں اور سیزفائر کے حصول میں تیسرے فریق کے فعال کردار کو قبول کریں اور بھارت نے پہلگام حملے پر شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی پاکستانی وزیراعظم کی فوری پیشکش سے فائدہ نہیں اٹھایا، اس کے بجائے، اس نے جارحیت اور جنگی راستہ اختیار کیا اور خود ہی جج، جیوری اور جلاد بن گیا۔
اس پس منظر میں، نام نہاد ’ آپریشن مہادیو’ سے متعلق دعوے ہمارے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے، بھارتی وزیر داخلہ کی دی گئی تفصیلات جھوٹ سے بھری ہوئی ہیں، جس سے اس کی ساکھ پر سنجیدہ سوالات اٹھتے ہیں، کیا یہ محض اتفاق ہے کہ پہلگام حملے کے مبینہ ذمہ داران لوک سبھا میں بحث کے آغاز پر ہی مارے گئے؟
پاکستان کا دوٹوک مؤقف رہا ہےکہ ہم خطے میں امن چاہتے ھیں تاھم بھارت کی جانب سے دوطرفہ تعلقات میں ’ نیا معمول’ قائم کرنے کے مسلسل بیانات کو بھی دوٹوک انداز میں مسترد کرتے ہیں جیسا کہ ہم نے مئی 2025 میں اپنے مضبوط جواب سے واضح کر