بھوک تہذیب کے آداب مٹا دیتی ہے
دنیا بھر میں اس وقت 80کروڑسے زیادہ انسانوں کو خوراک ہی میسر نہیں ،بھوک سے بلکتے کروڑوں انسانوں کی خوراک دنیا میں موجود ہے
مگر انہیں اس تک رسائی نہیں جبکہ عام طور پر صرف گھروں میں 64کروڑ ٹن خوراک ضائع ہورہی ہے
یوں روزانہ 80کروڑ بھوکوں کو سنگدل معاشروں کی بے حسی کا سامنا رہتا ہے ،اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ خوراک حاصل کرنے والے تقریبا ڈیڑھ ارب سے زیادہ لوگوں کا کھانا ضائع کردیتے ہیں ۔
اقوام متحدہ کے اس سروے سے جڑے عہدیدار اینڈریسن نے 80کروڑ انسانوں کی بھوک کو نظر انداز کرنے والے انسانی رویے کو بڑا انسانی المیہ قرار دیا ہے ۔
دنیا کا ہر فرد سالانہ اوسطاً 79 کلو گرام خوراک ضائع کرتا ہے۔
اس سے دنیا میں بھوک سے متاثرہ ہر فرد کو روزانہ 1.3 کھانے مہیا کیے جا سکتے ہیں۔
بھوک کے اس عالمی مسئلے سےناصرف عالمی معیشت پر منفی اثر پڑتا ہے
بلکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات، حیاتیاتی تنوع کے نقصان اور آلودگی میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔
یہ مسئلہ صرف دولت مند ممالک تک ہی محدود نہیں ہے۔
اس کا اندازہ یوں ہوتا ہے کہ اونچے، بالائی متوسط اور کمتر متوسط درجے کی آمدنی والے ممالک میں خوراک کے فی کس سالانہ ضیاع کی شرح میں صرف سات کلو گرام کا فرق ہے۔
شہری و دیہی آبادیوں میں خوراک کے ضیاع کی شرح میں نمایاں فرق دیکھا گیا ہے۔
مثال کے طور پر متوسط آمدنی والے ممالک میں دیہی آبادی نسبتاً کم مقدار میں خوراک ضائع کرتی ہے۔
اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ ہے کہ دیہات میں بچ جانے والی خوراک جانوروں کو کھلا دی جاتی ہے
اور مضافاتی علاقوں میں کھاد کے طور پر استعمال ہو جاتی ہے۔
کھانا ضائع کرنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی بھوکے کے میز سے کھانا چرا لے۔
دنیا بھر کے ظالم امیر زادوں کی جانب سے ڈیڑھ ارب انسانوں کے لئے کافی کھانا ضائع کرنے والا عمل بلاشبہ ایک بڑا انسانی المیہ ہے ۔
بھوک انسان کا ازل سے مسئلہ رہا ہے۔دنیا بھر کے مسائل بھوک کی ہی پیداوار ہیں ۔
بھوک سے روزانہ کئی طرح کے انسانی المیے جنم لیتے ہیں لہذا کہا جا سکتا ہے کہ ان المیوں کے ہم سب ذمے دار ہیں اقوام عالم کے لئے باالخصوص ترقی یافتہ اور خود کو مہذب کہلانے والی اقوام کے لئے یہ اعداد و شمار لمحہ فکریہ ضرور ہیں ۔
دنیا بھر میں بھوک کے مارے ہوئے 80 کروڑ ا نسانوں کو بڑی آسانی سے بچایا جاسکتا ہے ۔
صرف ڈیڑھ ارب انسانوں کا کھانا ضائع کرنے سے روکنے کا احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔
احساس کے ساتھ خوراک ضائع کرنے کا عمل رک جائے گا اور دنیا سے بھوک کا خاتمہ ممکن ہوجائے گا،
روزانہ کی بنیاد پر وسیع پیمانے پر کھانا ضائع کرنے کے اس عمل میں فوڈ کمپنیوں اور اداروں سے کہیں زیادہ خاندانوں کا کردار ہے۔
بھوکے لوگوں کے المیے پر ہی اس جدید دنیا میں اب تیز رفتار ترقی کرنے والوں کے
اذہان سے اخلاقی و انسانی اقدار کے ناپید ہونے کا بھی پتہ چلتا ہے
معاشرتی بے حسی اور نفسا نفسی کی دوڑ میں گم روبوٹس نما انسانوں کے سامنے
زندگی کا مقصد ہی سمجھ سے بالا تر ہے ۔
انسان کا ایک دوسرے سے اب مسلسل رابطہ برقرار ہے اور
رابطے کے اس جہان میں ایک دوسرے سے تعلقات بھی قائم ہیں
اقوام کی سطح سے لیکر افراد کی حد تک انسان ایک دوسرے کے مسائل حل کرنے کے دعوے تو بہت کرتا ہے
مگر ان سب کے باوجود انسان 80کروڑ انسانوں کو بھوک سے تلملاتے دیکھ کر
بھی ڈیڑھ ارب سے زیادہ انسانوں کی خوراک ضائع کردیتا ہے
اقوام متحدہ کے عہدیدار اینڈریسن نے تو اس المناک عمل کو
انسانی المیہ قرار دے کر میرے دل کی بات کر دی ہے ۔واقعی دنیا میں روزانہ اتنے
انسان جنگوں میں نہیں مرتے جتنے بھوک نگل جاتی ہے
اور بھوک ہی تمام بیماریوں کی ماں بھی ہے کیونکہ ہر بیماری کمزور انسان پر آسانی سے حملہ آور ہوجاتی ہے ۔معاشرے کی تمام برائیوں کی جڑ بھی بھوک ہی ہے
کیونکہ بھوک سے بلکتے بچوں کو چھین کر خوراک فراہم کرنے کا جذبہ انسانوں کو
ہر طرح کے جرائم پر آمادہ کئے رکھتا ہے ۔دنیا کو مسائل سے بچانے کیلئے بھوکے انسانوں
کی طرف توجہ دینا ہوگی
احساس کا رشتہ بحال رکھنا ہوگا ،انسانیت کا پہلا تقاضا بھی یہی ہے کہ
بھوک سے جاں بلب انسانیت کو احساس کی دولت سے بچایا جائے۔
بھوک کے احساس کو شعر و سخن تک لے چلو
یا ادب کو مفلسوں کی انجمن تک لے چلو
دنیا میں پھیلتی دہشتگردی اور وحشت ناکی کا سبب بھی بھوک ہے۔دنیا بھر کے دانشوروں
کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آرہی کہ” بھوک تہذیب کے آداب مٹا دیتی ہے
دنیا میں پائیدار امن کے لئے بھی سب سے پہلے غریبوں کی بھوک مٹانا ہوگی ۔
01/04/24
https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/04/p3-scaled.webp