کالم اور قلم کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور قلم کے استعمال کے نتیجے میں کالم تحریر کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں جو کام قلم کرتا ہے وہ تو تلوار بھی نہیں کرسکتی ہے۔ خیر تلوار سے تو بڑے بڑے نقصان ہوجاتے ہیں اور قلم کا کام اپنی نوعیت کے اعتبار سے بڑا اہم بھی ہے اور حساس بھی ہے۔ ذہن سازی کے لئے کالم اور قلم دونوں ضروری ہیں۔ انسان کو ذہنی طور پر خیر کا نمائندہ بھی بنایا جا سکتا ہے اور شر پھیلانے کے لئے بھی اس کو تیار کیا جا سکتا ہے۔ قلم اور لوح محفوظ سے کائنات کی تخلیق کا آغاز ہوا تھا۔ مذکورہ باتیں تحریر کرنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ ہم سب پر واضح ہو سکے کہ قلم کس قدر اہم ہے اور اس کو سب سے پہلے خالق کائنات نے لوح پر لکھنے کے لئے استعمال کیا۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ قلم کی کاٹ کتنی اہم ہوتی ہے اور قلم کے استعمال کے نتیجے میں بننے والی کسی بھی تحریر کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔ جب یہ بات سمجھ میں آجائے گی تو تحریر کرنے والا اور قاری دونوں میں احساس ذمہ داری پیدا ہو جاتا ہے۔ اور قلم کے استعمال کے معاملے میں ہم سب محتاط ہو جائینگے۔ ویسے تو اب محض تحریر ہی نہیں اب تو تقریر کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ ہمیشہ سے ہی تحریر اور تقریر نے لوگوں کی تعلیم وتربیت میں اہم کردار ادا کیا ہے بلکہ اساسی کردار ادا کیا ہے۔ ہم دیہاتی لوگ ہیں اور دیہاتوں کی مساجد کے مولوی حضرات کی تقریریں۔ سبحان اللہ سبحان اللہ۔ مجھ جیسے بے شمار افراد کا مذہبی علم ایسی ہی تقریروں کی بنیاد پر قائم ہوا ہے اور الا ماشاء اللہ۔ ہم جو بھی ہیں سب کے سامنے ہیں۔ سوشل میڈیا کے آنے سے بڑی بڑی چیزوں کی حقیقت کھل گئی ہے۔ اور اب کے مزے کی بات ہے ہم سب اتنے ہتھ چھٹ ہو گئے ہیں کہ جس کے جی میں جو آتا ہے کہے چلے جاتا ہے۔ کھلا میدان اور سب گھوڑے بھاگنے کے لئے تیار اور دیکھنے والے تماشائی بھی بے شمار۔ زید بکر بن رہا ہے اور بکر آئندہ چند دنوں میں کیا سے کیا ہو جائیگا۔ ہر شخص کی اپنی توجیحات بلکہ ہر ایک کی اپنی ترجیحات اور پھر ہر بات کو اپنے حساب سے پیش کرنا۔ نتائج اللہ جانے اور اس کا کام۔ پگڑی عزت کی علامت تھی اور اب تحریروں اور تقریروں میں تھوک کے حساب سے پگڑیاں اچھالی جا رہی ہیں اور اپنے آپ کو نمایاں کرنے کے لئے رات کے وقت چراغ کو سورج دکھایا جا رہا ہے اور اپنے ہر سننے والے اور دیکھنے والے کو دن میں تارے دکھائے جارہے ہیں شاید انسان کا ستارا چمک گیا ہے اور وہ جو کام کروڑوں روپے لگا کر بھی نہیں کرپا رہا تھا وہ صرف ایک چھوٹے موبائل کو اور نیٹ کے کنکشن کو خرید کر کئے جا رہا ہے۔ اپنی تمام صلاحیتوں کا مظاہرہ اور وہ بھی پوری دنیا کے سامنے۔ قلم بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ زبان بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ہاتھ پاوں بھی مارے جا سکتے ہیں بلکہ پروپیگنڈا اگر ہو مقصود پھر تو کئی کردار پیدا بھی کئے جا سکتے ہیں اور سینکڑوں مارے بھی جا سکتے ہیں یعنی بات کا بتنگڑ۔ بہرحال سچائی ایک انمٹ حقیقت ہے اور (حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے۔۔۔ اور خوشبو آنہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے)۔ ظاہر اور باطن کا سارا عمل دخل ہے اور ظاہر اور باطن جب ایک ہو جاتے ہیں تو پھر حقائق وواقعات قابل یقین بھی ہوتے ہیں اور ان کی بنیاد پر آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کرنے میں کبھی بھی پس و پیش سے کام نہیں لیا جاتا ہے۔ لیکن ظاہر اور باطن کو ایک کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ کہنے کو تو کچھ بھی کہا جا سکتا ہے لیکن سننے والے کی استعداد اور استطاعت کو ملحوظ خاطر رکھنا بہت ہی ضروری ہے۔ ورنہ افراتفری، ہیجان، شور شرابہ اور نئی نئی بحثیں۔ خیر ایک نیا موضوع اور پھر چل سو چل۔ چلنے پھرنے سے انسان ہلکا ہو جاتا ہے۔ وزن کم کرنے کا ویسے بھی آجکل بڑا رجحان ہے۔ کم وزن سمارٹ پلے کرتا ہے اور کم فہم پتہ نہیں کیا کیا کرتا ہے۔ بات ساری سوچ بچار اور فہم وادراک کی ہے. جو ان صفات سے کسی بھی وجہ سے متصف نہیں ہوتا ہے اس کو یہ مفید مشورہ مفت دینے میں کوئی حرج نہیں ہے چپ ہی بھلی ہوتی ہے ورنہ بات کے بتنگڑ اور اس کے نتیجے میں مذاکرے، ٹاکرے، استخراج اور پھر وضاحتیں۔ باتوں باتوں میں بڑا فرق ہوتا ہے اور باتیں کرنے والوں میں تو بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ کچھ شرلی پٹاخوں پر یقین رکھتے ہیں۔ کچھ اپنے آپ پر یقین رکھتے ہیں اور کچھ کسی پر بھی یقین نہیں رکھتے ہیں اور ایسے لوگ جھٹ میں رائی کا پہاڑ بنا دیتے ہیں اور ان کے ہاں یہ بات پیش نظر ہوتی ہے کہ ان کی ایسی حرکت کی وجہ سے ان کی بات بن جائیگی بیشک دوسروں کا ککھ بھی نہ رہے۔ اسی لئے لکھ اور ککھ متضاد ٹھہرے اور ہم سب افراط وتفریط کا شکار ہو گئے۔ شکار کی صورت میں چابکدستی بہت ہی ضروری ہوتی ہے بصورت دیگر بنا بنایا کھیل بگڑ جاتا ہے۔ ایک تو ہم زندگی کو واقعی کھیل سمجھنے لگے ہیں بلکہ کھیل تماشہ سمجھنے لگے ہیں اور تماشے میں لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لئے ڈگڈگی بجانا پڑتی ہے اور بالآخر ریچھ کو نکیل ڈال کر نچانا پڑتا ہے۔
لکھنا لکھانا اپنی نوعیت کا ایک حساس کام ہے جس کے کئی نتائج ہو سکتے ہیں۔ اس لئے کالم نگار کا علمی طور پر متوازن ہونا، ذہنی طور پر مضبوط ہونا، سوچ کے اعتبار سے مثبت ہونا اور ذاتی طور پر معقول ہونا بہت ہی ضروری ہے ورنہ پڑھنے والوں میں بھی تنوع ہے۔ معقول قاری تو ہر قسم کی تحریر پڑھ کر دل میں رکھ لیتا ہے اور حسب ضرورت استعمال کرتا