معیشت کے اشاریے درست سمت میں لانے کی کاوشیں
اداریہ
دنیا میں ترقی کرنے والی قومیں ریاست کیساتھ غلط بیانی نہیں کرتیں ،مہذب دنیا کے لوگ حکومت سے اپنی آمدنی کو چھپانا جرم تصور کرتے ہیں ،یہی سبب ہے کہ انکی معیشت کو استحکام مل رہا ہے جبکہ ہمارے ہاں آمدنی چھپائی جاتی ہے ٹیکس سے گریز کا رویہ معمول بن گیا ہے ،استطاعت رکھنے والے ٹیکس نہیں دیتے جبکہ عام لوگوں کی روزمرہ ضروریات کی چیزوں پر ٹیکس لگانے سے مسائل بڑھ رہے ہیں ،ان حالات میں ٹیکس چوری کا رحجان بڑھ رہا ہے جبکہ سارا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر پڑ رہا ہے اس حوالے سے وفاقی وزیر خزانہ ومحصولات سینیٹر محمد اورنگزیب کہتے ہیں کہ تنخواہ دارطبقہ زیادہ ٹیکس دے رہاہے، 43فیصد طبقہ ایک فیصد سے کم ٹیکس دے رہاہے، یہ پائیدارنہیں ہے کیونکہ خیرات سے ملک نہیں چل سکتے، اگر ٹیکس نہیں دیں گے تو آگے نہیں بڑھ سکتے۔ وزیرخزانہ نے کہا کہ ملک میں کلی معیشت کے اشاریے درست سمت میں اورمثبت ہے، خساروں میں کمی آئی ہے، زرمبادلہ کے ذخائرمیں اضافہ ہواہے، مہنگائی کی شرح کم ہوکر9.6فیصد ہوگئی، پالیسی ریٹ میں بتدریج کمی آرہی ہے، کلی معیشت کا استحکام اسلئے ضروری ہے کیونکہ اس سے نموکاعمل شروع ہو جاتاہے۔ ماضی میں جب درآمدات پرپابندیاں ہٹتی رہی تو اس سے زرمبادلہ کی کمی شروع ہوجاتی، یہ بنیادی مسئلہ تھا۔ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہمارا اسٹینڈبائی معاہدہ کامیابی سے مکمل ہواہے، اب ہم نئے پروگرام میں جا رہے ہیں، 25 ستمبرکو نئے پروگرام کی منظوری ہوجائے گی، ہمیں مجموعی قومی پیداوار کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح کو 13فیصد تک بڑھانا ہے، ہم 9 فیصد کی شرح سے کے ساتھ معاملات آگے نہیں بڑھاسکتے۔وزیرخزانہ نے کہا کہ ماضی میں جب آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام ہوتا اور بینچ مارک پراتفاق ہوتا تو اس پرعمل درآمد نہیں کیاجاتارہا، اس بار جب دستاویزات جاری ہوں گی توسب کوپڑھنا چاہیے کہ ڈھانچہ جاتی بینچ مارک میں کوئی فرق نہیں ۔ ٹیکس ٹوجی ڈی پی، توانائی کے شعبہ اور ایس او ایز اصلاحات ضروری ہے کیونکہ یہ ایک ٹریلین روپے کا معاملہ ہے، معاملات کودرست سمت میں آگے بڑھانا ضروری ہے کیونکہ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ہمیں پھر آئی ایم ایف کی طرف جانا ہوگا۔تنخواہ دارطبقہ زیادہ ٹیکس دے رہاہے، 43فیصد طبقہ ایک فیصد سے کم ٹیکس دے رہا ہے، یہ پائیدار نہیں ہے کیونکہ چیریٹی سے ملک نہیں چل سکتے۔ ڈیجیٹلائزیشن کاعمل آگے بڑھا رہے ہیں، ڈیجیٹلائزیشن سے شفافیت ہوگی اور کرپشن پرقابوپانے میں مددملے گی، اس عمل کے ذریعہ انسانی مداخلت کوکم سے کم کیا جاسکے گا، ٹیکس ریٹرن فائل کرانے کاعمل آسان بنارہے ہیں اگر ہم ٹیکس نہیں دیں گے تو ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔وزیرخزانہ نے کہا کہ ایس اوایز پر ہم بہت واضح ہے، حکومت کاروبار نہیں کرسکتی، جوچیز نجی شعبہ میں چل سکتی ہے اسے سرکاری شعبہ میں چلانے کی ضرورت نہیں ہے۔پبلک فنانسز کو بھی بہتربنایا جارہا ہے، اسی کے تحت اخراجات پرقابو پایا جارہا ہے، رائٹ سائزنگ کے حوالہ سے اقدامات کئے جارہے ہیں، 18 ویں ترمیم کے بعد جو ادارے وفاق کے پاس نہیں رہنا چاہئے تھے، انہیں صوبوں کومنتقل کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ پنشن کا بوجھ بہت زیادہ ہے، وفاقی سطح پر ہم نے نقصان پر قابوپانے کی کوشش کی ہے، سول ملازمین پر اس کا اطلاق ہوچکا ہے اورمسلح افواج کو ایک سال کا عرصہ دیا گیاہے۔وزیرخزانہ نے کہا کہ درآمدات میں کمی کے لیے اقدامات جائے جارہے ہیں، درآمدات کی مقامی متبادل پر توجہ دی جارہی ہے اس کے لیے سبسڈیز کا خاتمہ کیا جارہا ہے، برآمدات پر مبنی غیر ملکی سرمایہ کاری ہماری ترجیح ہے۔ پاکستان بین الاقوامی کیپٹل مارکیٹس سے استفادہ کرنا چاہتا ہے، ہم چین کے کیپٹل مارکیٹ میں پانڈابانڈجاری کرنا چاہتے ہیں، آئندہ مالی سال کے دوران بین الاقوامی کیپٹل مارکیٹ سے زیادہ فائدہ اٹھایاجائےگا۔وزیرخزانہ نے کہا کہ ہم استحکام سے نموکی طرف جارہے ہیں، نموکیلئے زراعت اورانفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ جات کوترجیح دی جارہی ہے، ملک میں بڑھتی آبادی کے مسئلہ اورموسمیاتی تبدیلیاں بھی اہم ایریاز ہیں جس کو ساتھ ساتھ لیکر چلناپڑے گا۔ان حالات میں ٹیکس نہ دینے کے رویوں کو ختم کرکے ملک کی تعمیروترقی کے لئے سب کو حصہ ڈالنا ہوگا بلکہ عام آدمی کو ریلیف دینے کیلئے مجوزہ اقدامات پر عملدرآمد کے لئے تعاون کرنا چاہئے ۔ہر پاکستانی ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملکی معیشت کو استحکام دینے میں کردار نبھائے گا تو ہی مسائل اور بحران ختم ہوسکیں گے ۔