انتہا کی مہنگائی اور معاشرتی جرائم میں اضافہ

تحریر: محمد ندیم بھٹی

2

پاکستان کی سیاست میں ایک نعرہ ہمیشہ زندہ رھا ھـے، ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘۔ یہ صرف ایک سیاسی نعرہ نہیں بلکہ عوام کی زندگی کا بنیادی تقاضا ھـے۔ دنیا کے ہر معاشرے میں حکومتیں اس بات کی ذمہ دار سمجھی جاتی ہیں کہ وہ اپنے عوام کو کم از کم کھانے، پہننے اور رہنے کی بنیادی سہولتیں ضرور فراہم کریں۔ مگر افسوس کہ ہمارے ہاں یہ بنیادی تقاضا آج بھی سوالیہ نشان بنا ھوا ھـے۔
مہنگائی کا جن اس حد تک بے قابو ھو چکا ھے کہ ایک عام مزدور یا تنخواہ دار طبقے کے لیے روٹی کا حصول بھی مشکل بنا دیا گیا ھے۔ گندم اور آٹے کی قیمتوں پر قابو پانے کی کوششیں اکثر اعلانات تک محدود رہتی ہیں، جبکہ چکن، سبزیوں اور دیگر اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رھی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ھے کہ غریب آدمی دو وقت کی روٹی کے لیے ترسنے لگتا ھے۔ جب بنیادی ضروریات زندگی ہی میسر نہ ھوں تو غربت صرف غربت نہیں رہتی بلکہ معاشرتی انتشار میں بدل جاتی ھے۔
سڑکوں پر، محلوں میں اور بازاروں میں آئے روز ایسے واقعات سامنے آتے ہیں جہاں لوگ بھوک اور تنگ دستی سے مجبور ھو کر اپنے بچوں سمیت خودکشی کر لیتے ہیں۔ اخبارات کی سرخیاں اور سوشل میڈیا کی خبریں ہمیں روز یہ پیغام دیتی ہیں کہ مہنگائی صرف معیشت کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ انسانی جانوں کا سوال بھی ھـے۔
جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح بھی اسی مسئلے کی پیداوار ھـے۔ جب ایک نوجوان کو نوکری نہ ملے، تعلیم مہنگی ھو، گھر چلانے کے لیے وسائل نہ ھوں تو وہ چوری، ڈکیتی، منشیات فروشی اور دیگر جرائم کی طرف مائل ھو جاتا ھے۔ پولیس کی رپورٹس اور اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جیسے جیسے مہنگائی بڑھتی ھے، ویسے ویسے جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا ھے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں بلکہ معاشرتی اصول ھے کہ بھوک انسان کو اخلاقیات سے دور کر دیتی ھے۔
ہمارے ہاں حکمران ہر دور میں وعدے کرتے آئے ہیں کہ مہنگائی پر قابو پایا جائے گا۔ کبھی سبسڈی کا اعلان ھوتا ھے، کبھی ریلیف پیکیج کی بات کی جاتی ھے، مگر یہ سب عارضی اقدامات ھوتے ہیں۔ مہنگائی کا اصل علاج اس وقت ممکن ھے جب ریاست اپنی ترجیحات بدل لے۔ بجائے اس کے کہ وزیروں اور افسروں کی آسائشوں پر اربوں روپے خرچ کیے جائیں، تعلیم، صحت اور سستی اشیائے خورونوش پر سرمایہ کاری کی جائے۔
معاشی صورتحال کو سامنے رکھتے ھوئے یہ تجویز دیتا ھوں کہ اگر گندم، چاول اور دیگر اجناس پر مؤثر کنٹرول کیا جائے، ذخیرہ اندوزوں کو کڑی سزا دی جائے اور زراعت کو ریاستی سرپرستی فراہم کی جائے تو خوراک کی قیمتوں میں کمی آ سکتی ھے۔ اسی طرح اگر بجلی، گیس اور پیٹرول کے نرخ عوام کی استطاعت کے مطابق مقرر کیے جائیں تو مہنگائی کی کمر ٹوٹ سکتی ھے۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں الٹی گنگا بہتی ھے۔ عام آدمی کی جیب سے ٹیکسوں کا خون نچوڑا جاتا ھے اور اشرافیہ کو مراعات دی جاتی ہیں۔
افسوسناک پہلو یہ بھی ھے کہ ہماری سیاست میں ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کا نعرہ تو لگایا گیا، مگر عملاً اس پر کبھی کام نہیں کیا گیا۔ آج بھی کروڑوں پاکستانی ایسے ہیں جو ایک کمرے کے کچے مکان میں رہنے پر مجبور ہیں، لاکھوں ایسے ہیں جو فٹ پاتھوں پر سوتے ہیں، اور کروڑوں ایسے ہیں جنہیں دن میں ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔
یہ صورتحال نہ صرف معاشی ناکامی کی عکاسی کرتی ھے بلکہ یہ سماجی تانے بانے کو بھی تباہ کر رھی ھے۔ جب غربت بڑھتی ھے تو معاشرے میں نفرت، بداعتمادی اور ناانصافی کو فروغ ملتا ھے۔ امیر اور غریب کے درمیان خلیج وسیع ھوتی جاتی ھے۔ ایک طرف اشرافیہ کے بچے بیرون ملک تعلیم حاصل کرتے ہیں، عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہیں، اور دوسری طرف ایک مزدور کا بچہ اسکول چھوڑ کر مزدوری کرنے پر مجبور ھو جاتا ھے۔ یہ تضاد کسی بھی معاشرے کو دیر تک قائم نہیں رکھ سکتا۔
قوموں کی تاریخ گواہ ھے کہ جب بھی عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم نہیں کی جاتیں، وہاں بغاوتیں جنم لیتی ہیں۔ اگر آج بھی ہمارے حکمرانوں نے اس خطرے کو محسوس نہ کیا تو آنے والا وقت ان کے لیے زیادہ مشکل ھو گا۔ مہنگائی اور بے روزگاری اگر اسی طرح بڑھتی رھی تو کوئی طاقت عوامی غصے کو روک نہیں سکے گی۔
قوم کو امید رکھنے کی ضرورت ھے مگر صرف امید کافی نہیں۔ عوام کو اپنی آواز بلند کرنا ھو گی اور حکمرانوں کو جواب دہ بنانا ھو گا۔ معاشرتی اصلاح اسی وقت ممکن ھے جب سب مل کر اس نظام کو بدلنے کی کوشش کریں جو صرف چند لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ھے اور باقی سب کو محروم رکھتا ھے۔
یہ کہنا بے جا نہ ھو گا کہ ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کا سوال محض ایک سیاسی نعرہ نہیں بلکہ یہ انسانی بقا کا سوال ھے۔ مہنگائی کی یہ آگ اگر بجھائی نہ گئی تو نہ صرف جرائم بڑھیں گے بلکہ معاشرے کا ہر طبقہ اس کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ حکومت وقت کو یہ سمجھنا ھو گا کہ تاریخ صرف ان حکمرانوں کو یاد رکھتی ھے جو اپنے عوام کو سہارا دیتے ہیں، نہ کہ ان کو جو انہیں بھوک، غربت اور مایوسی کے حوالے کر دیتے ہیں۔
اگر ہم موجودہ حالات پر غور کریں تو واضح ھوتا ھے کہ مہنگائی نے صرف غریب ہی نہیں بلکہ متوسط طبقے کو بھی بری طرح متاثر کیا ھے۔ آج ایک استاد، ایک کلرک، ایک صحافی یا ایک پولیس اہلکار بھی اپنی تنخواہ میں گھر کا خرچ پورا نہیں کر سکتا۔ یہ وہ طبقہ تھا جو معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ھے، مگر اب یہ بھی مشکلات کے گرداب میں پھنسا ھوا ھے۔ اس کے نتیجے میں قومی پیداوار اور کارکردگی دونوں متاثر ہو رھی ہیں۔
اسی طرح چھوٹے کاروباری افراد بھی مہنگائی کے ہاتھوں تنگ ہیں۔ دکاندار، ٹھیلے والے، رکشہ ڈرائیور سب شکایت کرتے ہیں کہ ان کی آمدنی میں اضافہ نہیں ھوا مگر اخراجات کئی گنا بڑھ گئے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.