پانی پانی کر گئی میری زمیں برسات کیوں

افکارِ تازہ

2

نظامِ شمسی جب سے وجود میں آیا ہے ، کرۂ ارض پہلے تو سورج کی حرارت کا ہدف بنا رہا اور رفتہ رفتہ جب حضرتِ انسان نے تہذیبی اور سائنسی ترقی کا سفر شروع کیا تو بلامبالغہ صدیوں تک اسے کم از کم اپنے اس ارتقائی عمل کے دور رس نتائج کا بالکل علم نہیں تھا ۔ بیسویں صدی تک آتے آتے سائنس دانوں کو اس وقت چونکنا پڑا جب انھیں فضائی و آبی آلودگی کے ساتھ زمین کے درجۂ حرارت میں مسلسل اوسط اضافے کے ہوش ربا انکشافات ہونے لگے ۔ اس کے ساتھ ہی گرین ہاؤس گیسوں ، گلوبل وارمنگ اور اوزون کی حفاظتی تہہ میں شگاف جیسی پریشان کن خبریں بھی میڈیا میں گردش کرنے لگیں ۔ دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک نے نہایت عیاری سے سارا ملبہ ترقی پذیر اور غریب ممالک پر ڈالنا شروع کیا لیکن ساتھ ہی ان اقوام نے پیش بندی کے طور پر ماحولیاتی علوم متعارف کرائے اور تحقیق کے ذریعے ری سائیکلنگ اور ہر قسم کی آلودگی سے نمٹنے کے لیے زبردست قلیل اور طویل مدتی اقدامات بھی لینے شروع کر دیے ۔نتیجتاً ترقی یافتہ اور کم ترقی یافتہ ممالک کے مابین معاشی اور سائنسی تفاوت میں لامحالہ اضافہ ہونے لگ گیا ۔
بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں ان معاملات پر پہلے تو شعور ہی بہت دیر میں بیدار ہونا شروع ہوا جو بیشتر تعلیمی اداروں اور اہلِ قلم کے معدودے حلقوں تک محدود رہا ۔
پھر عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کی مزید پریشان کن خبریں آنا شروع ہوئیں اور یہ حقیقت سامنے آئی کہ جہاں کئی ممالک میں ان تبدیلیوں کے مثبت اثرات ہوں گے وہیں پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں ان موسمی تغیرات کے بیشتر منفی اثرات کا خدشہ ہے۔مثلاً کئی صحرائی و نیم صحرائی خطوں میں بارشوں کا امکان جبکہ سرسبز علاقوں میں انتہا درجے کی طوفانی بارشوں اور خشک سالی کا خطرہ وغیرہ ۔ایسے میں ہماری تمام سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کو مل کر کوئی ٹھوس لائحۂ عمل تشکیل دینا چاہئیے تھا لیکن افسوس کی بات کہ ایسا کچھ نہ ہوا اور پانی سر سے بلند ہونے کی گھنٹیاں بجنے لگیں ۔ ٹی وی چینلز ، اخبارات اور سوشل میڈیا پر کافی شور شرابا اب بھی ہوتا ہے لیکن حکومت اور متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر سوال اٹھنا بالکل فطری ہے۔
سرکاری سطح پر رسماً محمکمہ و وزارتِ ماحولیات تو بنائے جاتے رہے لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عملی طور پر اقدامات برائے نام ہی ہوئے ۔ماضی قریب میں اچانک دس ارب درخت لگانے کا اعلان کیا گیا لیکن ان درختوں کی جہاں سب سے زیادہ ضرورت تھی یعنی پہاڑی ڈھلوانوں پر ، وہاں کم از کم دو سال تک تو کسی قسم کی شجر کاری مہم کے اثرات دور دور تک دکھائی نہ دیے ۔ دانشمندی کا تقاضا تو یہ تھا کہ یکلخت اتنے مہنگے منصوبے شروع کرنے کی بجائے کوئی جامع حکمتِ عملی تشکیل دی جاتی جس میں ماہرینِ ماحولیات سے مفصل مشاورت کی جاتی لیکن جیسا کہ اکثر ہوتا آیا ہے ، وزارتِ ماحولیات ایک غیر سنجیدہ ہستی کے سپرد کر کے “ کام تمام شد” کا کلیہ اپنایا گیا ۔ تاہم یہ خوش آئند بات ہے کہ موجودہ حکومتِ پنجاب نے سموگ جیسے عفریت پر قابو پانے کے لیے خشت سازی کی صنعت پر سخت قوانین کا اطلاق کیا اور فوری طور پر ان صنعتوں کو زنگ زیگ ٹیکنالوجی اپنانے کی ہدایات جاری کیں ۔ اس کا فوری نتیجہ یہ نکلا کہ سال 2024-25 کے موسمِ سرما میں سموگ کی شدت بہت کم رہی ۔ امید کرنی چاہیئے کہ وزارتِ ماحولیات اسی طرح کے جارحانہ اقدامات کی فوری منصوبہ بندی کرے گی تاکہ صرف تین سال کے وقفے کے بعد 2025 کے تباہ کن سیلابوں کا سدِ باب بھی کیا جا سکے۔
عالمی ماہرین تو کافی عرصے سے ہمیں گلیشئیرز کے غیر معمولی پگھلاؤ اور طوفانی بارشوں کی بابت بار بار آگاہ کر رہے تھے لیکن ہماری سب سے بڑی کمزوری سیاسی عدم استحکام ہے جس کے باعث طویل المعیاد پالیسی سازی دشوار ہوتی ہے۔ اسی سیاسی اتھل پتھل کے نتیجے میں نہ صرف ہم نئے ڈیم بنانے میں مجرمانہ تاخیر کرتے رہے بلکہ جو زیرِ تعمیر ڈیموں اور آب پاشی کے منصوبے ہیں ، وہ بھی زیرِ تکمیل ہی رہ گئے ۔ اس سلسلے میں کالا باغ اور دیامیر بھاشا ڈیم بڑی مثالیں ہیں ۔ یہ ایک تشویشناک اور تلخ حقیقت ہے کہ ایسے اجتماعی فلاحی منصوبوں کو ہمارے صوبے سیاسی کارڈ بنا چکے ہیں اور یہ بھلا بیٹھے ہیں کہ ایسا کر کے ہم ایک ٹائم بم بنا کر اسی پر بیٹھنے کا خوفناک عمل کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔سندھ طاس معاہدے کو ساڑھے چھ عشرے بیت چکے اور اس دوران بھارت نجانے کتنے ڈیم بنا چکا ہے لیکن ہم نے تربیلا ، منگلا اور وارسک ڈیم بنا کر آنکھیں بند کر لیں اور گویا لمبی تان کر سو گئے ۔ ہمیں سب سے پہلے تو بین الصّوبائی تنازعات کو کلیتاً سیاسی انداز میں حل کرنے کی فوری ضرورت ہے اور اس کے ساتھ دیا میر بھاشا ڈیم جیسے بیش قیمت ترین منصوبے کو ہنگامی بنیادوں پر مکمل کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیئے۔
ایسا نہ کر کے ہم ہر سال نجانے کتنے بلین کیوبک میٹر قدرتی طور پر ملنے والے پانی کے ضیاع کرتے بھی ہیں اور خاموشی سے یہ نظارہ دیکھ کر کچھ کرتے بھی نہیں ۔ اس تمام صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت سندھ طاس معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کا جواز ڈھونڈنے میں مصروف رہتا ہے۔ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ متذکرہ بالا تین ڈیموں میں مٹی جمع ہونے / siltation کی وجہ سے ان میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔ آئندہ جو بھی ڈیم بنائے جائیں ان میں مٹی جمع ہونے کے عمل کو روکنے کیلیے خصوصی چھلنیاں/ silt traps لگانے کا لازمی اہتمام کیا جائے ۔
ہمیں آب پاشی کے چھوٹے اور بڑے منصوبوں پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ شمالی پہاڑی علاقوں میں زبردست شجرکاری کا نہ صرف فوری آغاذ کر دینا چاہیئے بلکہ ان منصوبوں کا سہ ماہی و شش ماہی بنیاد پر فالو

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.