ہمارے دوست، ساتھی اور بھائی نے بیلجیم کے شہر برلسلز میں فیلڈ مارشل سے دو گھنٹے کی ٫٫ون ٹو ون،، ملاقات سے جو کچھ سمجھا اسے دوسروں کو سمجھانے کے لیے اپنے مخصوص انداز میں ملک کے بڑے اخبار کی زینت بنا دیا، ان تین کالموں کی سیریز سے دو چار روز چینلز اور اخبارات میں بڑا چرچا رہا، تحریک انصاف کے رہنماؤں اور سابق وزیراعظم عمران خان کے پرستاروں نے اسے برا بنایا ،جیسے ہمارے دوست نے کوئی ایسی شرلی چھوڑ دی جو ان کے صحن میں جا کر پھٹ گئی حالانکہ موصوف نے بڑی احتیاط سے حالات حاضرہ کا احاطہ کرتے ہوئے ماضی سے سبق سیکھنے، قومی سیاست میں مثبت کردار ادا کرنے اور تحفہ قدرت٫٫ زندگی,, کو بچانے کا مشورہ دیتے ہوئے تجویز دی تھی کہ مسلمہ حقیقت یہی ہے کہ ,,جان ہے تو جہان ہے,, لیکن ایسا عام طور پر ہوتا ہے کہ شاعر افسانہ نگار ہی نہیں, کالم نگار بھی جو کچھ کہنا چاہتے ہیں لوگ اس کا مطلب اپنی مرضی سے نکال لیتے ہیں پرانی بات ہے کہ برصغیر کی نامور ادیبہ قرہ العین حیدر پاکستان آ ئیں تو ان کی بڑی آ ؤ بھگت کی گئی ،ہمارے ہاں ادب سے پیار کرنے والوں کی کمی نہیں بلکہ ہم بحیثیت قوم تعریف اور پذیرائی میں کنجوس بھی ہرگز نہیں، ہر کسی با صلاحیت اور قابل قدر لوگوں کی حسب توفیق خدمت بھی کرتے ہیں اور ان کی خدمات پر خراج تحسین بھی پیش کرتے ہیں کیونکہ ،،ہم میرے تیرے،، کی بجائے کام اور نام کے قدردان ہیں قرہ العین حیدر جب پاکستان آ ئیں تو ان کے اعزاز میں ادیبوں نے بھی ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا تھا اور مجھے یاد ہے کہ جب ان کی مختلف کہانیوں پر تعریفی کلمات کہے گئے ،تو قرۃ العین صاحبہ نے ان سے پوچھا کہ اس کہانی میں میں نے کیا کہا ہے؟ اور پھر جس جس نے جواب دیا اس اس کی انہوں نے تردید کی کہ میرا مطلب یہ ہرگز نہیں تھااور قہقہے پہ قہقہہ بلند ہوتا رہا، راجیندر سنگھ بیدی، گلزار اور جاوید اختر بھی پاکستان سے بڑی داد ہی نہیں تحفے تحائف لے کر واپس گئے یہ الگ بات ہے کہ جاوید اختر اور شبانہ اعظمی،، وقت آ زمائش،، میں بہت چھوٹے ثابت ہوئے اور ان کی پوشیدہ پاکستان دشمنی زبان پر آ گئی اب ان سے نا مفاہمت ہو سکتی ہے اور نہ ہی معافی کی گنجائش ہے کیونکہ ہم پاکستانی ہیں الحمدللہ پاکستان ہماری آ ن ،شان اور پہچان ہے جبکہ جاوید اختر نام نہاد مسلمان اور شدت پسند بھارتی، ان کی شخصیت کا کھلا تضاد بھی اب منظر عام پر آ چکا ہے ہمارے ہاں،، کھلا تضاد،، صرف ایک شخصیت کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے جو ٹی وی سکرین پر سینکڑوں لوگوں کا کھلا تضاد دکھا چکا ہے اور آ خرکار خود بھی اسی کھلے تضاد کا شکار ہو گیا ہر کوئی اس کی ذمہ داری پر شک نہیں کر رہا، اسے معتبر سمجھتا ہے پھر بھی خان کے دیوانوں اور پروانے ھی نہیں، حقیقی ذمہ داروں نے ملاقات کی تردید کر دی کہ ،،ون ٹو ون ،،ملاقات ہی نہیں ہوئی، میں یہ سمجھتا ہوں کہ ڈیوٹی فل صحافی اور کالم نگار نے اپنی ڈیوٹی ذمہ داری سے ادا کی اور اس کے حقیقی مقاصد بھی پورے ہو گئے یعنی پیغام بطریق احسن جہاں جہاں پہنچانا تھا پہنچ گیا، اس لیے شرلی پٹاخے پر تردید کا پانی ڈال کر فضا کو اس کے دھوئیں سے بچایا گیا ہے کہ آ لودگی نہ پھیلے کیونکہ فضائی آ لودگی تو پہلے ہی موسمی تبدیلی کا عذاب بنی ہوئی ہے
موسمی تبدیلی پوری دنیا کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہیں اور عالمی سطح پر اس بات کا اقرار بھی موجود ہے کہ اس کے متاثرین میں پاکستان سرفہرست ہے مون سون ماضی میں بھی سال میں دو بار آ تا تھا لیکن اب اس کے رنگ ڈھنگ ہی مختلف ہیں، حکومت اور قومی اداروں نے قبل از وقت،، الرٹ ،،بھی جاری کیا پھر بھی محدود وسائل اور لاپرواہی میں ناقابل فراموش نقصان کا سامنا ہے مجموعی صورتحال کا جائزہ لیں تو پورے ملک کے طول و عرض میں اس نے ستم ڈھائے ہیں لیکن خیبر پختونخوا، آ زاد کشمیر، گلگت بلتستان، سندھ اور بلوچستان کے معاملات زیادہ خراب ہیں تاہم پنجاب بھی اس موسمی انگڑائی سے نہیں بچ سکا، اب اس حوالے سے کھلا تضاد یہ ہے کہ خیبر پختونخوا انقلاب اور حقیقی آ زادی کی خوشی میں ایک سے زیادہ مرتبہ وفاق پر چڑھ دوڑا، نتیجہ کچھ نہیں نکلا لیکن اپنی ریسکیو مشینری، کرینیں،ایمبولنسز اسلام آ باد میں چھوڑ کر بھاگ گیا اور الرٹ جاری ہونے کے باوجود اس نے اپنی مشینری وفاق اور پنجاب سے واپس نہیں مانگی، مختلف صوبوں اور اداروں نے مدد کی پیشکش کی تو وزیراعلی نے حسب روایت بڑھک مار دی کہ ہم ابھی زندہ ہیں، خود نقصانات کا ازالہ کر لیں گے، ایسے میں بھی کھلا تضاد یہ پایا گیا کہ جس فوج کو برا بھلا کہتے تھے اسی نے عوام اور متاثرین کی مدد کی، حقیقی آ زادی کے متوالے گنڈا پور دور دور نظر نہیں آ ئے، ان سے زیادہ امدادی کام کرتے جماعت اسلامی دکھائی دی، اس آ سمانی آ فت میں سینکڑوں زندگی ہار گئے، بستیاں اور گاؤں اجڑ گئے ،ہزاروں زخمی ہوئے، افواج پاکستان اورفارم 47 کی وفاقی حکومت کی کابینہ نے ایک ایک ماہ کی تنخواہ عطیہ کر دی ہے جبکہ وزیراعلی گنڈا پور نے ایک اور کابینہ کی نصف تنخواہ کا اعلان کیا گیا لیکن اس مصیبت کے حالات میں بھی کھلا تضاد یہ ہے کہ تحریک انصاف کے ایک رہنما نے یہ پھلجھڑی چھوڑی ہے کہ خیبر پختونخوا میں بسنے والوں پر قیامت کی گھڑی آ ن پڑی ہے اور خیبر پختونخوا کی بہو (مریم نواز )جاپان میں دورے پر ہیں حالانکہ مریم کی جانب سے بھرپور امداد کی پیشکش کی گئی تھی اور جواب میں بہادر گنڈاپور نے کہا تھا کہ ہم بھیک نہیں مانگتے، حقیقت یہی ہے کہ ایک جانب آ سمانی آ فت اور دوسری طرف دہشت گردی، باجوڑ اور صوبے کے مختلف علاقوں میں فورسز کا