دریا کا سانپ – فطرت کی بے رحم واپسی

تحریر: ڈاکٹر عمرانہ مشتاق

2

ترک کہاوت ہے کہ دریا ایک سانپ ہے اور پتھر اس کے انڈے۔ یہ سانپ صدیوں بعد بھی اپنے انڈوں کو سینکنے لوٹ آتا ہے۔ دریا اپنی پرانی گزرگاہوں کو کبھی نہیں بھولتا مگر ہم انسان بار بار اس کی حدود پر تجاوز کرتے ہیں اور پھر حیران ہوتے ہیں جب فطرت انتقام لیتی ہے۔

پاکستان میں حالیہ بارشوں نے اس کہاوت کو ایک کڑی حقیقت میں بدل دیا ہے۔ شمالی علاقوں میں پہاڑوں سے مٹی کے تودے بستیاں بہا لے گئے۔ دریا پرانے راستوں پر لوٹ آئے اور کئی گاؤں صفحۂ ہستی سے مٹ گئے۔ بونیر کے گاؤں کی کہانی دل دہلا دینے والی ہے، جہاں مکان ملبے کا ڈھیر بن گئے اور گمشدہ بچوں کے کھلونے پانی کے بہاؤ میں تیرتے رہے۔ گلگت بلتستان کے پہاڑوں میں وہ سات رضا کار اپنی جانیں گنوا بیٹھے جو دوسروں کی زندگیاں بچانے نکلے تھے۔

کراچی بھی اس قہر سے بچ نہ سکا۔ بارش نے شہر کی بدنظمی کو بے نقاب کر دیا۔ برسوں کا کچرا نالوں کو بند کر کے بیٹھا رہا اور پانی نے اپنا راستہ ڈھونڈتے ہوئے گلیوں کو دریا بنا دیا۔ گاڑیاں آدھی ڈوبی ہوئی، دکانیں پانی میں تیرتی ہوئی اور گھروں میں جمع ہوتا پانی اس حقیقت کا اعلان کر رہا تھا کہ ’’میں لوٹ آیا ہوں، تم نے روکا تھا۔‘‘ بجلی کے کھمبے پانی میں ڈوب کر موت کے جال بن گئے اور شہری بے بسی سے فطرت کی قہر ناکی دیکھتے رہ گئے۔

یہ پہلا واقعہ نہیں۔ سندھ اور بلوچستان کے کئی علاقے گزشتہ دہائیوں میں بار بار ایسے طوفان دیکھ چکے ہیں۔ وادیٔ سندھ کی قدیم تہذیبیں دریا کے قریب آباد تھیں مگر انہوں نے پانی کے راستوں کا احترام کیا۔ وہ جانتے تھے کہ دریا کی گزرگاہ پر قبضہ خود کو تباہی کے حوالے کرنا ہے۔ آج ہم نے ہزاروں سال پرانی اس حکمت کو بھلا دیا ہے۔

ماحولیاتی ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ درختوں کی بے دریغ کٹائی، پہاڑوں میں غیر قانونی تعمیرات اور دریائی گزرگاہوں پر قبضے بارشوں کے اثرات کو کئی گنا بڑھا دیتے ہیں۔ موسمی تبدیلیاں اس صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہیں۔ گلوبل وارمنگ کے باعث برفانی تودے تیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے شمالی علاقوں میں اچانک سیلابوں کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔

اربان پلاننگ میں بھی ہم نے فطرت کو نظرانداز کیا۔ شہروں میں برساتی پانی کے ذخائر ختم کر دیے گئے۔ نالوں کے کنارے کچی آبادیوں اور کمرشل پلازوں نے جگہ لے لی۔ نتیجہ یہ کہ بارش کے بعد پانی کو بہاؤ کے لیے کوئی راستہ نہیں ملتا اور وہ بستیوں کو بہا کر لے جاتا ہے۔

قدرتی آفات میں سب سے زیادہ متاثر غریب طبقہ ہوتا ہے۔ وہ لوگ جن کے گھر پہلے ہی کچے اور کمزور ہوتے ہیں، ایک جھٹکے میں سب کچھ کھو بیٹھتے ہیں۔ بچے ملبے میں گم ہو جاتے ہیں، بزرگ بیماریوں اور سردی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ امدادی ٹیمیں اکثر ناکافی وسائل اور تاخیر سے پہنچتی ہیں۔ یہ مناظر صرف خبروں کی زینت نہیں بنتے بلکہ اجتماعی غفلت کی داستان سناتے ہیں۔

وقت آگیا ہے کہ ہم فطرت کے ساتھ دشمنی ترک کریں اور زمین کے استعمال کے لیے سخت قوانین وضع کریں۔ دریاؤں اور ندی نالوں کی اصل گزرگاہوں کو خالی کرایا جائے۔ پہاڑوں پر شجر کاری کو ترجیح دی جائے تاکہ زمین کو کٹاؤ سے بچایا جا سکے۔ شہروں میں بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے جدید نظام بنائے جائیں۔ شہری منصوبہ بندی میں ماہرینِ ماحولیات کو شامل کیا جائے۔

اب ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کب سدھرتے ہیں۔ کیا ہم دریا کو اس کا راستہ واپس دیں گے، پہاڑوں کو ان کا سبز لباس لوٹائیں گے، نالوں کو صاف کریں گے اور شہروں کو سائنسی منصوبہ بندی کے تحت تعمیر کریں گے یا پھر ہر سال پانی ہمیں یہی یاد دہانی کراتا رہے گا کہ قصور دریا کا نہیں ہمارا ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.