نئے صوبوں کی بازگشت  اور صوبہ بہاولپور  

احساس کے انداز تحریر :۔ جاویدایازخان

3

سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر نئے صوبوں کے قیام کی بازگشت ایک دفعہ پھر لوگوں کی توجہ اور دلچسپی کا باعث بن رہی ہے ۔قومی اسمبلی میں  ریاض حسین فتیانہ کی جانب سے مغربی پنجاب صوبے کے قیام کا بل اس جانب واضح اشارہ ہے کہ انتظامی بنیاد پر نئے صوبوں کا قیام ناگزیر ہے ۔قومی اسمبلی میں آئین کے آرٹیکل اکیاون اور انسٹھ میں ترمیم کا بل پیش کیا گیا ہے ۔یہ آئینی ترمیم بل رکن قومی اسمبلی  ریاض حسین فتیانہ نے پیش کیا ہے ۔جس میں صوبہ پنجاب کی نئی حد بندی اور نیا صوبہ “مغربی پنجاب ” تجویذ کیا گیا ہے اور پنجاب کو دو انتظامی یونٹس میں تقسیم کرنے کا بل پیش کیا جبکہ کچھ دن قبل تاجر رہنماوں نے بھی انتظامی اختیارت کے ارتکاز کو معاشی رکاوٹ قرار دیا تھا  اور اس سے قبل میاں عامر محمود جو دنیا نیوز اور پنجاب گروپ آف کالجز کے مالک نے بھی ایسی ہی خواہش کا ظہار کیا ہے کہ ہر ڈویژن کو صوبہ بنایا جاۓ ۔ ۔اسپیکر نے یہ بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوادیا ہے ۔ترمیم منظور ہونے کی صورت میں پاکستان کے پانچ صوبے  بن جائیں گے ۔اس بل کے پیش ہوتے ہی پاکستان میں نئے صوبوں کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے ۔جبکہ گذشتہ روز اے آر وائی کے پروگرام “خبر ” میں مشہور صحافی اینکر محمد مالک کے مطابق پاکستان میں بارہ صوبوں کی بات کی جارہی ہے جن میں سے چار پنجاب کے ہونگے ۔لیکن ان کے مطابق یہ تجویذ بھی سامنے آرہی ہے کہ ہر ڈویژن کو ایک  انتظامی صوبہ بنا دیا جاۓ۔ ٹی وی ،پریس اور سوچل میڈیا پر نشر ہونے والی ان خبروں  سے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے کیونکہ سب جانتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے انتظامی صوبے ہی بہتر گورنس اور سہولیات فراہم کرسکتے ہیں ۔لیکن ان چار یا پانچ صوبوں کے ناموں میں کہیں بھی صوبہ بہاولپور  کا نام سنائی نہیں دیتا بلکہ جنوبی پنجاب کی بات ہوتی ہے ۔جبکہ اس کی بحالی کا مطالبہ سب سےپہلا اور  پرانہ ہے۔ توقع ہے کہ انشااللہ  پنجاب میں نئے صوبے یقینا” عوامی سوچوں کے آئینہ دار ہوں گے اور ان کے قیام سے انتظامی و ترقیاتی معاملات میں آسانیاں پیدا ہو نگی ۔میڈیا پر تبصرے اور تجزیے تو بہت ہو رہے ہیں لیکن اب دیکھتے ہیں کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ؟

ماضی میں ہماری قومی اور سیاسی تاریخ میں اس طرح کے صوبوں کی تقسیم کا مطالبہ سامنے آتا رہا ہے۔خاص طور پر پنجاب میں صوبہ بہاولپور کی بحالی اور جنوبی پنجاب کا قیام کئی مرتبہ ایوانوں میں جاچکا ہے ۔لیکن ہر دفعہ کسی نہ کسی مصلحت کا شکار ہوکر پس پردہ چلا جاتا ہے ۔ صوبہ بہاولپور کے قیام کو سیاسی طور پر پہلی مرتبہ  ستر کے الیکشن میں سامنے لایا گیا اور متحدہ محاذ  بحالی صوبہ بہاولپور کے نام سے تحریک کا آغاز ہوا جس کے مطابق ون یونٹ سے قبل کیونکہ صوبہ بہاولپور کا  باقاعدہ آئینی وجود   موجود تھا اس لیے جب ون یونٹ توڑا گیا تو اس کی بحالی کی بجاۓ اسے صوبہ پنجاب میں شامل کردیا گیا۔اس لیے یہ مطالبہ کیا گیا  تھا کہ بہاولپور کی سابقہ صوبائی حیثیت بحال کی جاۓ ۔اس الیکشن میں عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی کے بعد سب سے زیادہ ووٹ بہاولپور متحدہ محاز کو ملے اور یہ پاکستان کی تیسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی ۔مگر سانحہ سقوط مشرقی پاکستان کی باعث ایسا ممکن نہ ہو سکا اور متحدہ محاذ کے سیاستدانوں نےصاحب اقتدار جماعت پیپلز پارٹی کی جانب رجوع کرکے اس تحریک کو پس پشت ڈال دیا ۔مگریہاں کے  لوگوں کے دلوں میں صوبے کی  بحالی کی خواہش بدستور  قائم رہی اور   ہر ہونے والے الیکشن میں سیاستدانوں نے بہاولپور صوبے کی بحالی کا نعرہ بلند کیا اور عوامی حمایت حاصل تو کرلی مگر صوبہ بحال نہ ہوسکا ۔پھر کچھ لوگوں نے علاقائی بنیادوں پر “صوبہ جنوبی پنجاب ” کی افادیت نمائیاں کرنا شروع کردی اور سابقہ الیکشن میں جنوبی پنجاب کے  سیاستدانوں کی جانب سے ” صوبہ جنوبی پنجاب  “کے لیے ایک سیاسی اتحاد قائم کیا گیا اور پی ٹی آئی سے ایک معاہدہ بھی ہوا ۔لیکن جب پی ٹی آئی اقتدار میں آئی تو بات جنوبی پنجاب سیکٹیریٹ  تک محدود ہو کر رہ گئی  اور جس کا قیام بھی عمل میں لایا گیا اس سیکٹریٹ کو  ملتان اور بہاولپور کے درمیان بانٹ دیا گیا ۔ملتان میں تو اس سیکٹریٹ کی بلڈنگ بھی بن گئی مگر بہاولپور میں ابھی تک کچھ کام ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔اگر دیکھا جاۓ تو   عملا” تمام تر انتظامی اختیارت آج بھی لاہور کے پاس دکھائی دیتے ہیں ۔ جنوبی پنجاب (ملتان ،بہاولپور ،ڈیرہ غازی خان ،مظفرگڑھ اور لیہ وغیرہ  )صدیوں سے زراعت اور جاگیردارنہ نظام کا مرکز رہا ہے ۔یہاں کے بڑے بڑ ے خاندانوں کو انگریزوں کے دور میں بڑی بڑی جاگیریں اور خطابات ملے ہیں  ۔اس لیے وہ مقامی سطح پر “طاقت کا ستون” بن گئے ہیں اور یہی زمینیں اور روائتی اثر رسوخ آج بھی سیاست میں ان کی پوزیشن مضبوط رکھے ہوۓ ہے اور ہر وفاقی اور صوبائی حکومت ان کے ذریعے اپنا پلڑا ہمیشہ بھاری کر لیتی ہے ۔ان سیاستدانوں کا جھکاو ہمیشہ جنوبی پنجاب صوبے کی جانب رہا ہےتاکہ صدیوں سے قائم اپنی حیثیت” کنگ میکر “کے طور پر برقرار رکھ سکیں ۔ جنوبی پنجاب صوبہ کا نعرہ دراصل اسی محرومی اور سیاسی خواہش کا عکس ہے ۔جبکہ جنوبی پنجاب میں غربت ،بے روزگاری اور محرومی  بہت زیادہ ہے اور عوام سمجھتے ہیں کہ وسائل کی تقسیم میں اس علاقے کو  وہ حصہ نہیں ملتا جو ملنا چاہیے ۔اس لیے پچھلی کئی دھائیوں سے ہر الیکشن سے پہلے عوام کو “جنوبی پنجاب ” یا “صوبہ بہاولپور ” یا پھر “ترقیاتی پیکیج “کا خواب دکھایا جاتا ہے ۔لیکن الیکشن کے بعد عملدرآمد کبھی نظر نہیں آیا ۔پچھلے دور میں سول سیکٹریٹ کے قیام سے کچھ تشفی  تو ضرور ہوئی ہے لیکن بہاولپور کے عوام  کی محرومیوں کا ازلہ نہیں ہو سکا ۔ یہاں تک کہ باوجود وعدوں کے  بہاولپور ڈویژن میں قیام پاکستان سے لے کر آج تک کوئی  نیا ضلع بھی نہیں بن سکا ۔ملک   کے ہرڈویژن کو صوبہ بنانے یا پھر چار صوبوں کی جگہ بارہ صوبوں کی تجویذ اور منصوبہ بندی  عوامی احساس محرومی ،لسانیت اور قوم پرستی جیسی سوچ کو ختم کرنے میں اہم کردار ضرور ادا کر سکتی ہے ۔

صوبہ بہاول پور کی بحالی کے لیے جدوجہد کرنے والی تنظیمیں  اور اس کی بحالی کے وعدہ کرنے والے سیاستدان  رفتہ رفتہ کم ہوتے چلے گئے کیونکہ ملک کی کوئی بھی بڑی سیاسی جماعت اس صوبہ بحالی کی حمایت کے لیے کھل کر سامنے نہیں  آرہی ہے اور ان کا جھکاو بظاہر صوبہ جنوبی پنجاب کی جانب ہے ۔البتہ عوامی ہمدردیاں اور خواہش آج بھی بہاولپور صوبے کی بحالی سے وابستہ ہیں ۔بہاولپور کے عوام  اور جنوبی پنجاب کے عوام کی سوچ میں ایک نمائیاں فرق یہ ہے کہ بہاولپور کے لوگ اپنے سابقہ صوبے کی بحالی کےخواہشمند ہیں جبکہ جنوبی پنجاب کے لوگ پوری سرائیکی بیلٹ پر مشتمل ایک بڑا اور  انتظامی و علاقائی  صوبے کا ازسر نو قیام چاہتے ہیں ۔بہاولپور کے لوگ  اپنی پسماندگی اور محرومیوں کا ازلہ تو چاہتے ہیں صوبے کا قیام بھی چاہتے ہیں لیکن   بڑے بڑے بااثر سیاستدانوں اور بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کی حمایت سے محروم دکھائی دیتے ہیں ۔آج جب ایک مرتبہ پھر  نئے صوبوں کی  بازگشت سنائی دے رہی ہے  اور بات صرف جنوبی پنجاب صوبے کی ہورہی ہے تو  ایسے میں بہاولپور  صوبے کی خواہش مند سیاسی قیادت کو سامنے آنا چاہیے اور بہاولپور صوبے کے مطالبے کو  ازسر نو  پیش کرنا چاہیے ۔ایسا نہ ہو کہ بہاولپور صوبے کی بحالی صرف سیاسی نعرہ بن کر رہ جاۓ ۔ یاد رہے کہ ماضی میں بھی پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب اور نون لیگ صوبہ بہاولپور کی قرار دادیں  صوبائی اسمبلی میں پیش کر چکی ہیں ۔ورنہ یہ دعا کریں کہ ہر ڈویژن کو صوبہ بنانے کی تجویذ قابل عمل ہو سکے ۔انتظامی یونٹس کے قیام سے قبل قومی سطح پر ایک طول سوچ وبچار ،بحث اور مشاورت  کی ضرورت ہوگی  اور سب کو مل بیٹھ کر ہی اسے قابل عمل بنایا جاسکتاہے ۔ہماری دعا ہے کہ ملک کی ایسی بہتری  ہو جو ملک میں  ترقی اور استحکام کا باعث بنے ۔البتہ اس  تجویذ سے بلدیاتی اداروں کی  تشکیل ،افادیت اور اختیارات میں بہتری کی سوچ بھی شامل ہو سکتی ہے ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.