وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے، ایف آئی اےکی تفتیش کے دوران ’بحریہ ٹاؤن‘ اور اس کے مالک ملک ریاض کے خلاف مبینہ کرپشن کے ثبوت حاصل کر لیے ہیں۔ایک کارروائی کے دوران ایک ارب 12 کروڑ روپے کی منی لانڈرنگ کے شواہد سامنے آئے ہیں۔
بحریہ ٹاؤن انتظامیہ یا ملک ریاض کی جانب سے تاحال اِن الزامات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم گذشتہ روز ملک ریاض کی جانب سے ’ایکس‘ پر جاری کردہ ایک بیان میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’گذشتہ چند ماہ کے دوران حکومتی اداروں کی جانب سے پے در پے سامنے آنے والے بے مثال دباؤ، بحریہ ٹاؤن کے سٹاف کے اراکین کی گرفتاریوں، کمپنی کے بینک اکاؤنٹس کی منجمدی، عملے کی گاڑیوں کی ضبطی اور دیگر سخت اقدامات کے باعث بحریہ ٹاؤن کا ملک بھر میں آپریشن شدید طور پر مفلوج ہو چکا ہے۔‘ملک ریاض کا کہنا تھا کہ وہ اِن حکومتی اقدامات کے باعث بحریہ ٹاؤن کے پاکستان بھر میں آپریشنز بند کرنے سے محض ایک قدم کی دوری پر ہیں
دوسری جانب پاکستان کے قومی احتساب بیورو (نیب) نے ایک بیان میں بتایا کہ روبیش مارکی پراپرٹی کو 50 کروڑ 80 لاکھ روپے میں نیلام کیا گیا ہے اور یہ قیمت ریزرو پرائس سے دو کروڑ روپے زیادہ ہے۔ نیب کے مطابق اس پراپرٹی کی ادائیگی اور منتقلی کا عمل جاری ہے۔
نیب کا یہ بھی کہنا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کے کارپوریٹ آفس ون اور ٹو کے لیے مشروط پیشکش کی گئی ہے۔ ‘کاپوریٹ آفس ون کے لیے 87 کروڑ 60 لاکھ کی مشروط بولی لگی۔ کارپوریٹ آفس ٹو کے لیے 88 کروڑ 15 لاکھ کی مشروط بولی وصول۔ کارپوریٹ آفس ون اور ٹو کی نیلامی کی منظوری دی جانا باقی ہے۔’
جبکہ نیب کے مطابق تین پراپرٹیز فروخت نہیں ہوئیں۔ ’تین جائیدادوں کی نیلامی موخر کر دی گئی۔ ان پر نیب کو مطلوبہ بولی موصول نہ ہوئی۔‘
جن تین جائیدادوں کی مطلوبہ بولی موصول نہیں ہوئی ان میں ارینا سینیما، بحریہ ٹاؤن انٹرنیشنل اکیڈمی اور سفاری کلب شامل ہیں۔
خیال رہے کہ نیب نے بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض کے تعمیراتی پراجیکٹ بحریہ ٹاؤن کے دو کارپوریٹ دفاتر سمیت اربوں روپے مالیت کی چھ جائیدادوں کی نیلامی کے لیے آج کی تاریخ مقرر کی تھی۔
بحریہ ٹاؤن کی جانب سے اس نیلامی کو رکوانے کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا گیا تھا تاہم ہائیکورٹ نے نیلامی رکوانے کی بحریہ ٹاؤن کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔
بدھ کو ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے خلاف بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ نے سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے استدعا کی ہے کہ بحریہ ٹاؤن کی جائیدادوں کی نیلامی کا عمل روکا جائے۔
بحریہ ٹاؤن کی جائیدادوں کی نیلامی کا حکم احتساب عدالت نے تین مختلف مقدمات میں ملک ریاض کو اشتہاری قرار دینے کے بعد کیا گیا تھا۔
احتساب عدالتوں نے جن جائیدادوں کو نیلام کرنے کا حکم دیا، وہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی حدود میں واقع ہیں اور ان تمام جائیدادوں کو تجارتی بنیادوں پر چلایا جا رہا تھا۔
ان جائیدادوں میں بحریہ ٹاؤن کے دو کارپوریٹ دفاتر، ایک تعلیمی ادارے کی عمارت، سفاری کلب اور ایک شادی ہال کے علاوہ سنیما گھر بھی شامل ہے۔
مختلف اخبارات میں شائع ہونے والے اشتہار میں کہا گیا ہے کہ ان اثاثوں کی بولی اشتہار میں دی گئی قیمت سے شروع ہو گی اور سب سے زیادہ بولی دینے والے شخص کو کامیاب قرار دیا جائے گا۔
ان میں نیب نے بحریہ ٹاؤن کے کمرشل ایریا میں واقع سنیما گھر کی قیمت ایک ارب دس کروڑ روپے تجویز کی ہے جبکہ ایک انٹرنیشل اکیڈمی کی عمارت کی نیلامی کی بولی ایک ارب سات کروڑ روپے سے شروع ہو گی۔
اس کے علاوہ بحریہ ٹاؤن اسلام آباد میں واقع سفاری کلب کی قیمت ایک ارب چوبیس کروڑ روپے رکھی گئی ہے۔
اس اشتہار میں کہا گیا ہے کہ کامیاب بولی دہندہ کو نیلامی والے دن جائیداد کی قیمت کا پانچ فیصد سکیورٹی ڈیپازٹ میں ادا کرنا ہو گا اور ایک ماہ کے اندر دس فیصد جبکہ جائیداد کا باقی پچاسی فیصد تین ماہ کے اندر ادا کرنا ہو گا اور جائیداد کی مکمل رقم جمع ہونے کے بعد یہ جائیداد بولی میں کامیاب ہونے والے کے نام کی جائے گی جبکہ ناکامی کی صورت میں زربیعانہ کی رقم ضبط تصور ہو گی۔
اس اشتہار میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تمام ٹیکسز، ٹرانسفر فیس اور دیگر حکومتی اخراجات بھی بولی میں کامیاب ہونے والا ہی برداشت کرے گا
یادرہے کہ رواں سال کے آغاز میں ملک ریاض نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں نیب کی جانب سے مختلف شہروں میں سرکاری زمینوں پر قبضے کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ نیب کا ’بے سروپا پریس ریلیز دراصل بلیک میلنگ کا نیا مطالبہ ہے۔ ہم نے پاکستان سمیت دنیا کے ہر ملک کے قانون کی پاسداری کی اور ہمیشہ کرتے رہیں گے۔‘
انھوں نے نیب کے بیان کو ملک میں سیاسی صورتحال سے جوڑتے ہوئے نیب پر بلیک میلنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہاتھا کہ ’وہ کسی کے خلاف گواہی دیں گے اور نہ ہی کسی کے خلاف استعمال ہوں گے۔‘
انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ وہ ’گواہی کی ضد‘ کی وجہ سے بیرون ملک منتقل ہوئے۔
خیال رہے کہ ملک ریاض کا شمار پاکستان کی ان بااثر کاروباری شخصیات میں ہوتا ہے جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ملک کی بااثر شخصیات اور سیاسی جماعتوں کےاہم لوگوں سے رابطے رکھتے ہیں تاہم گذشتہ چند برسوں سے اس پراپرٹی ٹائکون کے ستارے گردش میں ہیں۔
دریں اثنا وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڈ کے بیان میں مزید دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’بحریہ ٹاؤن نے ریکارڈ اور کیش کو چھپانے کے لیے (بحریہ ٹاؤن کے) سفاری ہسپتال کو فرنٹ آفس بنایا اور ہسپتال کی ایمبولینس کو ریکارڈ اور کیش کی نقل و حرکت کے لیے استعمال کیا گیا۔ بحریہ ٹاؤن کے ملازمین نے ریکارڈ جلانے کی بھی کوشش کی، کچھ ریکارڈ ضائع بھی ہوا لیکن زیادہ تر شواہد ایف آئی اے نے اپنی تحویل میں لے لیے