غزہ کا نوحہ ‘ اقوام عالم کے ضمیر کا امتحان

اج کا اداریہ

3

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ غزہ کے مسلمانوں پر جیسا ظلم کیا جا رہا ہے ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کے اجلاس سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار نے کامیاب دورہ امریکا کے دوران غزہ کے لیے بھرپور آواز اُٹھائی، غزہ کے نہتے شہریوں کے لیے تعاون وقت کی اہم ضرورت ہے، جس طرح غزہ میں ظلم و ستم ہو رہا ہے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا، اسرائیلی جارحیت کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں تباہی کے مناظر دیکھے نہیں جا سکتے، پٹی میں موجود بچے بھوک کے باعث لاغر ہو گئے، وہ بچے نہ تو بول پا رہے ہیں اور نہ ہی اپنی حالت زار بتا سکتے ہیں۔

غزہ میں اسرائیلی فوجیوں کی نہتے فلسطینیوں پر وحشیانہ فائرنگ کے نتیجے میں گزشتہ روز بھی مزید 52 فلسطینی شہید ہوئے ہیں، ان میں سے 40 فلسطینی خوراک کے متلاشی تھے۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں اسرائیلی حملوں کا سلسلہ جاری ہے اور صبح سے اب تک شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 52 ہوگئی ۔
الجزیرہ نے غزہ کے طبی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ شہدا میں 40 فلسطینی تھے جو شدید بھوک سے مجبور ہوکر خوراک کی تلاش میں نکلے تھے۔
طبی ذرائع کے مطابق غزہ میں بھوک سےمزید 7 فلسطینی شہید ہوگئے جس کے بعد اکتوبر 2023 کے بعد سے بھوک کی وجہ سے شہید ہونے والے شہریوں کی مجموعی تعداد 153 ہوگئی

اقوام متحدہ کی خواتین کی ایجنسی کی ڈائریکٹر سوفیا کالٹورپ نے اس صورتحال کے بارے میں کہا کہ ’ غزہ میں خواتین اور بچیوں کو ایک ناقابلِ تصور انتخاب کا سامنا ہے، یا تو وہ اپنی پناہ گاہوں میں بھوک سے مر جائیں، یا خوراک اور پانی کی تلاش میں باہر نکلیں، جہاں انہیں شہید کیے جانے کا شدید خطرہ ہے
غزہ ناصر ہسپتال کے غذائی قلت کے وارڈ میں مائیں اپنے بچوں کے سائے کی طرح خاموش وجود کو دیکھتی رہتی ہیں، جو شدید بھوک سے اتنے نڈھال ہو چکے ہیں کہ رونے کی طاقت بھی نہیں رکھتے۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ایسی خاموشی اُن جگہوں پر عام ہوتی ہے جہاں شدید غذائی قلت والے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے، یہ اس بات کی علامت ہے کہ جسم آہستہ آہستہ کام چھوڑ رہا ہے۔

ڈاکٹر احمد الفرا، جو اطفال اور زچگی کے شعبے کے سربراہ ہیں، نے کہا کہ’ ہمیں بچوں کے لیے دودھ ، طبی سامان اور خوراک چاہیے، ہمیں ہسپتالوں کے لیے سب کچھ درکار ہے۔’
مزاحمتی تنظیم حماس نے غزہ کی صورتحال کو ایک ’ ہولناک قحط’ قرار دیا ہے، کیونکہ زمینی راستے اب بھی اسرائیل کی جانب سے بند ہیں، حالانکہ عالمی برادری راستے کھولنے کا مطالبہ کر چکی ہے۔
فلسطینی تنظیم نے ایک بیان میں کہا کہ’ اسرائیل نے خوراک کو آہستہ قتل کرنے کے ہتھیار میں اور امداد کو افراتفری اور لوٹ مار کے آلے میں تبدیل کر دیا ہے۔’
حماس نے کہا کہ ’ زیادہ تر امدادی ٹرک لوٹ مار اور حملوں کا شکار ہو رہے ہیں، جو کہ قابض قوت کی ایک منظم پالیسی کا حصہ ہے، غزہ کو اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے روزانہ 600 سے زائد امدادی اور ایندھن کے ٹرکوں کی ضرورت ہے، جبکہ جو کچھ اسرائیل غزہ میں داخل ہونے دیتا ہے، وہ برائے نام ہے۔
دنیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ غزہ کے لوگ صرف امداد نہیں چاہتے، وہ عزت، خود مختاری اور ایک آزاد ریاست کا حق چاہتے ہیں۔ جب تک انھیں یہ حق نہیں دیا جائے گا، تب تک نہ کوئی جنگ بندی دیرپا ہوگی، نہ کوئی معاہدہ موثر۔یہ وقت ہے جب امریکا، قطر، مصر، اور دیگر ثالث ممالک کو اپنے کردار کو سنجیدگی سے ادا کرنا ہوگا۔ اسرائیل کو اپنی جارحیت بند کرنی ہوگی، حماس کو بھی سیاسی حکمت عملی اپنانی ہوگی اور دنیا کو فلسطینیوں کو صرف ایک مظلوم قوم کے طور پر نہیں بلکہ ایک باوقار قوم کے طور پر تسلیم کرنا ہوگا۔آخر میں سوال وہی ہے جو دنیا کا ہر حساس انسان اپنے آپ سے کر رہا ہے: کیا ہم واقعی انسان ہیں؟ کیا ہم واقعی ظلم کے خلاف ہیں؟ اگر ہاں، تو پھر ہمیں صرف خاموش تماشائی بننے کے بجائے، اس نسل کشی کو رکوانے کے لیے عملی قدم اٹھانا ہوگا۔

برطانوی پارلیمان کے 221 اراکین نے ایک جرات مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے وزیر اعظم کیئر اسٹارمر سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ پیش رفت اہم ضرور ہے، لیکن جب تک اس مطالبے کو عملی اقدام میں نہ بدلا جائے، تب تک یہ محض کاغذی باتوں کی حد تک محدود رہے گا۔ فرانس اور ناروے جیسے ممالک پہلے ہی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرچکے ہیں، مگر برطانیہ سمیت کئی ممالک اب بھی دوغلے مؤقف کے ساتھ صرف سفارتی چالاکی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ وزیرِ اعظم اسٹارمر کا یہ کہنا کہ ’ابھی وقت نہیں آیا‘ دراصل وقت گزارنے کی حکمتِ عملی ہے، جس کا سب سے بڑا نقصان غزہ کے بے قصور شہریوں کو ہو رہا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے حالیہ انٹرویو میں جنگ بندی کی امید دلائی، لیکن ساتھ ہی حماس کی مکمل ہتھیار ڈالنے کی شرط رکھ دی۔ یہ مؤقف، بظاہر امن کی بات کرتا ہے لیکن حقیقت میں یکطرفہ شرائط پر مبنی ہے، جو زمینی حقائق کو نظرانداز کرتا ہے۔ مذاکرات کی کامیابی صرف اس وقت ممکن ہے جب فریقین کو سنجیدہ بات چیت کے لیے سازگار ماحول اور یکساں مواقعے میسر آئیں۔ جنگ بندی محض ایک جنگی حکمتِ عملی کے بجائے، ایک انسانی تقاضا بن چکی ہے۔
غزہ کی کی موجودہ صورتحال بین الاقوامی نظام کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اقوام متحدہ، او آئی سی، عرب لیگ اور یورپی یونین جیسے ادارے محض بیانات اور ہمدردی کے پیغامات تک محدود ہیں۔ اگر یہی روش برقرار رہی تو آنے والے دنوں میں غزہ صرف ایک انسانی المیہ نہیں، بلکہ عالمی شرمندگی کی ایک سیاہ مثال کے طور پر تاریخ میں لکھا جائے گا۔
دنیا کو فیصلہ کرنا ہوگا، کیا وہ قحط سے مرتے بچوں، بے گھر عورتوں اور بیمار

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.