غزہ : بھوک سے ہلاکتیں

اج کا اداریہ

3

اسرائیلی فوج نے پرتشدد کارروائی کے ذریعے امدادی جہاز ’حنظلہ‘ کو غزہ کے قریب بین الاقوامی پانیوں میں روک کر اس پر قبضہ لیا۔
قطر کے نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق امداد جہاز کے ذریعے غزہ میں امداد پہنچانے کی کوشش کرنے والی تنظیم فریڈم فلوٹیلا کولیشن (ایف ایف سی) کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج نے اس جہاز کو بین الاقوامی پانیوں میں غزہ سے تقریباً 40 ناٹیکل میل (74 کلومیٹر) کے فاصلے پر تشدد کے ذریعے روک لیا ہے۔
تنظیم نے ایک بیان میں کہا کہ مقامی وقت کے مطابق رات 11 بج کر 43 منٹ (پاکستانی وقت کے مطابق اتوار کی صبح ایک بج کر 43 منٹ) پر اسرائیلی فورسز کی جانب سے جہاز پر نصب کیمرے بند کیے جانے کے بعد حنظلہ سے تمام رابطے منقطع ہو گئے۔
بیان  میں کہا گیا ہے کہ ’یہ غیر مسلح کشتی جان بچانے والی امدادی اشیا لے جا رہی تھی کہ اسرائیلی فورسز نے زبردستی سوار ہو کر اس پر قبضہ کر لیا، مسافروں کو اغوا کر لیا گیا اور سامان ضبط کر لیا گیا، یہ کارروائی غزہ کے قریب بین الاقوامی پانیوں میں فلسطینی سمندری حدود سے باہر کی گئی، جو بین الاقوامی سمندری قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے‘
حنظلہ پر 12 ممالک سے تعلق رکھنے والے 21 کارکن سوار تھے، یہ جہاز غزہ میں بھوک اور محاصرے کا شکار فلسطینیوں کے لیے انسانی امداد لے جا رہا تھا، جس میں بچوں کا دودھ، ڈائپرز، خوراک اور ادویات شامل تھیں۔
فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے غزہ جانے والے امدادی جہاز کو روکنے پر اسرائیل کی مذمت کی ہے اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بحری قزاقی کے اس جرم کی مذمت کرے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم کارکنوں کی حفاظت کی ذمہ داری نیتن یاہو کی حکومت پر عائد کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ فلوٹیلا مشن اس وقت تک جاری رہیں جب تک محاصرہ ختم نہیں ہو جاتا‘۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران بھوک اور غذائی قلت سے مزید 9 افراد جان کی بازی ہار گئے، جس کے بعد غزہ میں بھوک سے مرنے والوں کی مجموعی تعداد 122 ہو گئی ہے، جن میں 83 بچے شامل ہیں۔
’الجزیرہ عربی‘ کے غزہ میں نمائندے کی رپورٹ کے مطابق جمعہ کی صبح سے اسرائیلی حملوں میں کم از کم 52 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، اور شہادتوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
ایک سابق امریکی فوجی، جو غزہ میں بدنام زمانہ غزہ ہیومینٹرین فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) کے لیے کام کر چکا ہے، نے بتایا کہ اس نے بلاشبہ ایسے جنگی جرائم دیکھے ہیں جن میں خوراک کی امداد حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے عام شہریوں کو قتل کیا گیا۔
جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے رہنماؤں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر فلسطینی علاقے میں امدادی سامان کے داخلے پر عائد پابندی ہٹا دے تاکہ قحط کا شکار لوگوں تک مدد پہنچ سکے۔
اسرائیل کی غزہ پر جنگ میں اب تک کم از کم 59 ہزار 676 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 44 ہزار کے قریب زخمی ہو چکے ہیں۔
7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں میں اسرائیل میں تقریباً ایک ہزار 139 افراد ہلاک اور 200 سے زائد افراد یرغمال بنائے گئے تھے، جس کے بعد سے اسرائیل نے غزہ میں مسلسل حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ برطانیہ کے 221 اراکین پارلیمنٹ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے، وزیر اعظم کیئر اسٹارمر پر غزہ میں اسرائیلی جنگ کے دوران ٹھوس اقدام کرنے کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔
مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے تقریباً 221 ارکان پارلیمنٹ نے ایک کھلے خط پر دستخط کیے، جس میں اسٹارمر کی لیبر حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ آئندہ ہفتے اقوام متحدہ کی فلسطین سے متعلق کانفرنس سے قبل فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے۔اقوام متحدہ کے فوڈ ایڈ پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں ہر تین میں سے ایک شخص کئی دن تک بغیر کھائے گزار رہا ہے، 90 ہزار خواتین اور بچوں کو فوری علاج کی ضرورت ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام نے ایک بیان میں کہا کہ غزہ میں غذائی بحران مایوسی کی بے مثال سطح پر پہنچ گیا ہے اور ہر 3 میں سے 1 فرد کئی دنوں سے نہیں کچھ کھا رہا، غذائی قلت مزید بگڑ گئی ہے ، اگلے چند ماہ میں 470,000 فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی میں تباہ کن قحط کا سامنا ہونے کی توقع ہے
عالمی ادارہ خوراک نے خبردار کیا کہ انسانی امداد کی کمی کی وجہ سے لوگ مر رہے ہیں، غذائی امداد ہی آبادی کے لیے خوراک حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہے جب خوراک کی قیمتیں ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی ہیں۔
حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق غذائی قلت کی وجہ سے مزید نو افراد ہلاک ہو گئے جس کے بعد جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک غذائی قلت کی وجہ سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 122 ہو گئی ہے۔
اسرائیل کے ایک سکیورٹی اہلکار نے کہا کہ آنے والے دنوں میں غزہ میں فضا سے امداد گرانے کی اجازت دی جا سکتی ہے، جس کے بارے میں امدادی ادارے پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ غزہ میں رسد پہنچانے کا ایک غیر مؤثر طریقہ ہے۔
اقوام متحدہ نے اس اقدام کو اسرائیلی حکومت کی جانب سے غیر فعالیت کی طرف توجہ ہٹانے کا حربہ قرار دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کے لیے انسانیت اور ہمدردی کی کمی کی شدید مذمت کی اور کہا کہ غزہ کی پٹی نہ صرف ایک انسانی بحران کا شکار ہے بلکہ ایک اخلاقی بحران ہے جو عالمی ضمیر کو چیلنج کر رہا ہے۔
ادھر امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے قطر سے اپنی مذاکراتی ٹیموں کے انخلا کے بعد نئی جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کو یقینی بنانے کے لیے مذاکرات کا مستقبل اب تک غیر یقینی ہے
لندن میں ہزاروں مظاہرین نے غزہ میں فلسطینیوں تک خوراک کی رسائی بحال کرنے کے لیے مظاہرے میں شرکت کی اور اسرائیل کی غزہ پٹی کو بھوک میں دھکیلنے کی مذمت کی۔
قبل ازیں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.