اصل تنہائی — ایک سماجی المیہ

تحریر: ڈاکٹر عمرانہ مشتاق

2
ہماری سوسائٹی میں بڑھاپا ہمیشہ سے عزت، تجربے اور رہنمائی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ بزرگ گھر کے وہ چراغ تھے جن کی روشنی میں آنے والی نسلیں راستہ پاتی تھیں۔ لیکن آج کے دور میں یہ چراغ بجھتے نہیں… بجھا دیے جاتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ کئی مائیں باپ اپنی زندگی کا ہر قیمتی لمحہ، اپنی صحت، اپنی جوانی اور اپنی کمائی صرف اولاد کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ وہ محبت کے بدلے محبت کی امید رکھتے ہیں، لیکن اکثر بڑھاپے میں انہیں محض برداشت کیا جاتا ہے۔ ان کی باتوں کو “پرانی سوچ” کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے، ان کی موجودگی کو بوجھ سمجھا جاتا ہے، اور بعض اوقات انہیں احساس دلایا جاتا ہے کہ “یہ آپ کا گھر نہیں ہے”۔
المیہ یہ بھی ہے کہ بعض اوقات والدین کی تنہائی میں اولاد کے بجائے گھر میں آنے والے نئے رشتے بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ ہر بہو یا داماد ایسا نہیں ہوتا، لیکن بعض افراد میں لالچ، بدگمانی یا سخت مزاجی کی وجہ سے ماحول تلخ ہو جاتا ہے۔ ایسے رویے نہ صرف والدین کو ذہنی اذیت دیتے ہیں بلکہ خاندان کی جڑوں میں بھی زہر گھول دیتے ہیں۔ بہو یا داماد اگر والدینِ شریکِ حیات کو بوجھ سمجھیں، یا ان کے حقوق اور مقام کو نظرانداز کریں، تو یہ گھریلو سکون کو تباہ کر دیتا ہے۔
اسلام میں والدین کا مقام نہایت بلند ہے۔ قرآنِ پاک میں بارہا والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
⁠”اور والدین کے ساتھ بھلائی کرو۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑکو بلکہ ان سے عزت و احترام کی بات کرو۔” (سورۃ الاسراء: 23)
یہ آیت ہمیں صرف مالی مدد کرنے یا ساتھ رکھنے کا نہیں، بلکہ محبت، عزت اور نرمی سے پیش آنے کا حکم دیتی ہے۔ والدین کی خدمت ایک فرض ہے، لیکن خدمت کے ساتھ احساسِ قدر، توجہ اور احترام دینا اصل عبادت ہے۔
بدقسمتی سے آج ہم مادی دوڑ میں اس حد تک مشغول ہو گئے ہیں کہ والدین کی قربانیوں کو بھول بیٹھے ہیں۔ کئی بچے سمجھتے ہیں کہ ماں باپ کو اپنے ساتھ رکھ لینا ہی کافی ہے، چاہے وہ ایک کمرے تک محدود ہو جائیں، چاہے ان سے بات چیت ختم ہو جائے، چاہے وہ خاموشی کے سائے میں اپنی بقیہ زندگی گزار دیں۔
ہمارے پیارے نبی ﷺ نے فرمایا:
⁠”والدین جنت کا دروازہ ہیں، اگر چاہو تو اسے ضائع کر لو اور اگر چاہو تو اس کی حفاظت کرو۔” (ترمذی)
ہمیں سمجھنا ہوگا کہ بڑھاپا صرف جسمانی کمزوری کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک جذباتی اور روحانی آزمائش بھی ہے۔ ایک ماں یا باپ کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ محسوس کریں کہ ان کی موجودگی اہم ہے، ان کی رائے کی قدر کی جاتی ہے، اور وہ محض ایک ذمہ داری یا بوجھ نہیں بلکہ خاندان کا دل ہیں۔
ہماری سوسائٹی کا یہ المیہ ہے کہ والدین کی موجودگی میں ہی انہیں تنہا کر دیا جاتا ہے۔ اصل تنہائی وہ نہیں جو خالی کمروں میں ہو، بلکہ وہ ہے جب اپنے ہی لوگ آپ کو دیکھتے تو ہیں، مگر پہچانتے نہیں، سنتے نہیں، اور محسوس نہیں کرتے۔
یاد رکھیے  بزرگوں کے دل بہت نازک ہوتے ہیں۔ وہ شاید اپنی تکلیف کا اظہار نہ کریں، لیکن ایک سرد جملہ، ایک نظرانداز، ایک بے اعتنائی ان کے دل میں ایسی خراش ڈال دیتی ہے جو کبھی نہیں بھرتی۔
آج وہ آپ کے ماں باپ یا سسرال والے ہیں، کل آپ خود اسی موڑ پر کھڑے ہوں گے۔
محبت، عزت اور توجہ… یہ صدقہ جاریہ ہے۔ جتنا آج بانٹیں گے، کل اتنا ہی لوٹ کر پائیں گے۔
اس سے پہلے کہ آپ کے بزرگ خاموشی کی چادر اوڑھ لیں، ان کے دل کی دھڑکنوں کو سن لیں  ورنہ ایک دن آپ چاہ کر بھی ان کی آواز نہیں سن پائیں گے۔
بڑھاپا جھریوں کا نام نہیں، بلکہ وہ خزانہ ہے جس میں برسوں کی محبت، قربانی اور دعائیں چھپی ہیں۔ کاش ہم اس خزانے کو وقت پر پہچان لیں، اس سے پہلے کہ وہ خاموشی کے سمندر میں ڈوب جائے۔
جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.